خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
مصرف الزکاۃ ہو فقیر وہو من لہ أدنی شيء، ومسکین من لا شيء لہ الخ۔ إن طالب العلم یجوز لہ أخذ الزکاۃ ولو غنیا إذا فرغ نفسہ لإفادۃ العلم واستفادتہ لعجزہ عن الکسب (درمختار) وفي الشامي: والأوجہ تقییدہ بالفقیر الخ۔ (شامي ۳؍۲۸۳-۲۸۶ زکریا، کذا في مراقي الفلاح / باب المصرف ۷۱۹ قدیمي) التصدق علی العالم الفقیر أفضل أي من الجاہل الفقیر۔ (شامي ۳؍۳۰۴ زکریا، البحر الرائق / باب المصرف ۲؍۴۳۶ رشیدیۃ) وقید بالولاد لجوازہ لبقیۃ الأقارب کالإخوۃ والأعمام والأخوال الفقراء؛ بل ہم أولی؛ لأنہ صلۃ وصدقۃ۔ (شامي ۳؍۲۹۳ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۸؍۱۱؍۱۴۲۸ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہمستحق مدارس میں زکوٰۃ دینے کا دوگنا اَجر ملتا ہے سوال(۲۵۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد حضراتِ علماء کرام واکابرین نے ہندوستانی مسلمانوں کے دین وایمان کی بقاء کے لئے جو لائحۂ عمل تیار کیا تھا، وہ عوامی چندہ سے چلنے والے مدارس کا قیام ہے، اﷲ کا شکر ہے کہ ان کی فراست ایمانی اور بصیرت افروز فیصلہ کے سبب ان مدارسِ دینیہ سے ہندوستانی مسلمانوں کو بڑی تقویت اور استحکام ملا اور ان کو دینی فکر ورجحان دینے میں ان مدارس کا بڑا نمایاں رول اور کردار رہا، اگر ہمارے اکابرین نے ہندوستان میں مدارس کا جال نہ پھیلایا ہوتا تو یہ ہندوستان کب کا دوسرا اندلس بن چکا ہوتا؛ لیکن ان مدارس کے ہوتے ہوئے دشمنوں کی ساری تدبیریں ناکارہ ہوتی چلی گئیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اِدھر کا فی دنوں سے مسلمانوں کی نام نہاد تنظیمیں ان مدارس کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں، اور عوام وخواص کے دلوں میں علماء ومدارس کے خلاف نفرت کے بیج بورہی ہیں؛ لہٰذا وضاحت فر مائیں کہ اہلِ مدارس کو زکوٰۃ کی جو رقم