خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس لڑکے سے میت نے حج کرنے کو متعین طور پر کہا ہے، وہی اس کی جانب سے حج بدل کرے گا اور پہلے سے حج کرنا حج بدل کی صحت کے لئے لازم نہیں ہے۔ وبقي من الشرائط … وحج المأمور بنفسہ وتعینہ إن عینہ۔ (درمختار ۲؍۶۰۰کراچی، ۴؍۱۶ زکریا) ولا یشترط البلوغ والحریۃ ولا الذکورۃ ولا أن یکون قد حج عن نفسہ۔ (غنیۃ الناسک ۳۳۷ إدارۃ القرآن کراچی، زبدۃ المناسک ۲؍۴۴۴) المامور المعین إن عینہ الآمر بأن قال: یحج عني فلان لا غیرہ فمات فلان لم یجز حج غیرہ عنہ ولو لم یصرح بالمنع بأن لم یقل لا غیرہ فمات فلان أحجوا عنہ غیرہ۔ (غنیۃ جدید ۳۲۸، قدیم ۱۷۶ انوار مناسک ۵۴۸) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۶؍۱۰؍۱۴۱۱ھجس پر حج فرض نہ ہو اس کا بار بار حج بدل کرنا؟ سوال(۲۲۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: جو لوگ ایک سے زائد حج بدل کرچکے ہیں، حالانکہ ان پر حج فرض نہیں ہے، تو اس کا حج بدل کے لئے جانا اور لوگوں کا اس سے حج کروانا کیسا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں مذکورہ شخص سے حج بدل کرانا جائز مگر مکروہ تنزیہی ہے۔ فجاز حج الصرورۃ من لم یحج عن نفسہ … وغیرہم أولی لعدم