خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
زکوٰۃ کی رقم سے دارالافتاء کو کتابیں مہیا کرنا سوال(۲۰۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایسے دار الافتاء میں زکوٰۃ کے پیسہ سے کتابیں خرید کر دینا جس میں طلباء نہیں پڑھتے اور محض عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے بنایا گیا ہو اور وہاں خود بھی استفادہ کرتا ہے، تو کیا زکوٰۃ کے پیسے سے ایسے دارالافتاء میں کتابیں خرید کر دینا جائز ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ کی رقومات سے دارالافتاء کے لئے کتابیں خریدنا جائز نہیں ہے؛ کیوںکہ یہ زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہے؛ البتہ اگر کسی مستحق غریب کو زکوٰۃ کی رقم دی جائے اور وہ اپنی طرف سے بخوشی کتابیں خرید کر دارالافتاء میں جمع کردے، تو یہ جائز ہوگا۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] ولا یصرف إلی بناء کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد وکل مالا تملیک فیہ۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۲۹۱ زکریا) الزکاۃ یجب فیہا تملیک المال؛ لأن الإیتاء في قولہ تعالیٰ: {وَاٰتُوا الزَّکَاۃَ} یقتضي التملیک۔ (البحر الرائق ۲؍۲۰۱ کوئٹہ) مصرف الزکاۃ ہو فقیر وہو من لہ أدنی شيء أي دون نصاب۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۳۸۳ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۲؍۳؍۱۴۲۶ھزکوٰۃ کی رقم سے کتابیں، تسبیحات اور مسنون دعائیں خرید کر تقسیم کرنا؟ سوال(۲۰۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے