خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وسعت کے بعد مقروض ہوجانے سے حج کا حکم سوال(۳۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: میرے والد صاحب بنگال میں کوئلہ کی کان میں سرکاری نوکری کرتے تھے، اس دوران کبھی زیادہ روپئے پیسے جمع ہوئے یانہیں؟ مجھے اس کے متعلق معلوم نہیں؛ لیکن ۱۹۹۲ء میں میرے والد نوکری سے رٹائر ہوگئے، اس وقت قریب قریب ڈھائی تین لاکھ روپئے والد صاحب کو ملے تھے، اور اس وقت کوئی قرض وغیرہ بھی والد صاحب کے ذمہ نہیں تھا۔ اب مسئلہ قابلِ غور یہ ہے کہ میرے والد کے ذمہ حج فرض ہوا ہے یانہیں؟ اگر نہیں ہوا تو کوئی بحث نہیں؛ لیکن اگر فرض ہوچکا ہے تو پھر اب کیا حکم ہے؟ جب کہ اس وقت حالت یہ ہے کہ میرے والد کے اوپر بہت زیادہ قرض ہوچکا ہے، اور کھیت وغیرہ بھی اتنا نہیں ہے جس میں سے کچھ فروخت کرکے اس فریضہ کو ادا کرسکیں، اور نہ ہی کوئی پیشہ یا تجارت ہے، اب کوئی ذریعہ یا صورت نہیں ہے اور نہ ہی آئندہ کوئی ایسی امید ہے، جس سے میرے والد فریضہ حج کو ادا کرسکیں، تو کیا کوئی ایسی صورت شریعت میں موجود ہے کہ حج کئے بغیر ہی مسئلہ حل ہوجائے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:موجودہ دور میں ڈھائی لاکھ کے اندر اطمینان اور فراغت کے ساتھ حج کیا جاسکتا ہے، بریں بنا مسئولہ صورت میں اگر آپ کے والد صاحب کے پاس حج کرنے کے بقدر رقم اتنی مدت تک رہی کہ اگر وہ حج کرنا چاہتے تو کر لیتے، تو ان پر حج فرض ہوچکا ہے، اور بعد میں مقروض ہوجانے اور مذکورہ رقم کے خرچ ہوجانے کے باوجود ان سے حج کی فرضیت ساقط نہ ہوگی؛ بلکہ جس طرح بھی ہوسکے زندگی میں حج کرنے کی کوشش کریں، اور اگر حج کرنے کا مرتے وقت تک انتظام نہ ہو، تو وصیت کرکے جائیں اور اﷲ تعالیٰ سے توبہ واستغفار مسلسل کرتے رہیں۔ قال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ: {وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلا} [اٰل عمران: ۹۷]