خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وسبب افتراضہا نصاب حولي فارغ عن حاجتہ الأصلیۃ۔ (تنویر الأبصار علی الدر المختار ۳؍۱۷۴ زکریا) وقیمۃ الأرض تضم إلی الثمنین، وفي الشامیۃ: ویضمن أحد النقدین إلی الآخر قیمۃ۔ (شامي ۳؍۲۳۴ زکریا) ویسقط بہلاک الخارج من غیر صنعہ، وبہلاک البعض یسقط بقدرہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۶) فقط واللہ تعالی اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۸؍۱۱؍۱۴۳۱ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہمزارع اور ربُ الارض میں سے کس پر کتنی زکوٰۃ واجب ہوگی؟ سوال(۳۲۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر کوئی شخص نصفا نصف (ایک کی زمین دوسرے کا بیج اور محنت، حاصل شدہ فصل آدھی آدھی) معاملہ کرکے کھیتی کرتا ہے، تو زکوٰۃ کس کے ذمہ کتنی ہوگی؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:زمین دار اور کاشت کار دونوں پر اپنی اپنی ملکیت فروخت کرنے کے بعد جو آمدنی ہو، اس میں حسبِ ضابطہ عشر یا زکوٰۃ واجب ہوگی۔ وفي المزارعۃ: إن کان البذر من رب الأرض فعلیہ ولو من العامل، فعلیہما بالحصۃ۔ (درمختار، باب العشر / مطلب: ہل یجب العشر علی المزارعین ۳؍۲۷۸ زکریا) وفي المزارعۃ علی قولہما العشر علیہما بالحصۃ وعلی قولہ علی رب الأرض؛ لکن یجب في حصتہ في عینہ وفي حصۃ المزارع یکون دینا في ذمتہ۔ (البحر الرائق / باب العشر ۲؍۲۳۷ کوئٹہ، الفتاویٰ الہندیۃ / باب زکاۃ الزرع والثمار ۱؍۱۸۷ کوئٹہ) إذا زارع رجل رجلاً بالنصف، والبذر من رب الأرض أو من العامل