خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
پر برابر یا کم وبیش کرکے حسبِ موقع خرچ کیا جاسکتا ہے، اس طرح کی رسیدات وچندہ وخرچہ کہاں تک مناسب ہے؟ کیا اس طرح کے چندہ میں زکوٰۃ کا روپیہ وپیسہ دیا جاسکتا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: تعمیر خواہ مدرسہ کی ہو یا مسجد کی، اس میں زکوٰۃ کا روپیہ نہیں لگایا جاسکتا، زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے مصرف کا پایا جانا ضروری ہے۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] عن الثوري قال: الرجل لا یعطي زکاۃ مالہ … في کفن میت ولا دین میت ولا بناء مسجد…الخ۔ (المصنف لعبد الرزاق ۴؍۱۱۲ رقم: ۷۱۶۳) لا یصرف إلی بناء نحو مسجد کبناء القناطر والسقایات۔ (شامي ۲؍۳۴۴ کراچی، ۳؍۲۹۱ زکریا) لا إلی ذمي … وبناء مسجد۔ (البحر الرائق ۲؍۲۴۳ کوئٹہ) لا یجوز أن یبنی بالزکاۃ؛ لأن التملیک شرط فیہا، ولم یوجد، وکذا لا یبنی لہا القناطر والسقایات۔ (تبیین الحقائق / باب المصرف ۲؍۱۲۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۷؍۹؍۱۴۱۳ھزکوٰۃ کی رقم سے مکتب یا مدرسہ کے لئے جگہ خریدنا؟ سوال(۳۰۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زکوٰۃ کی رقم سے مکتب یا مدرسہ کے لئے جگہ کا خریدنا درست ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ کی رقم سے براہِ راست مکتب یا مدرسہ کی جگہ خریدنا جائز نہیں ہے، یہ غریبوں کا حق ہے؛ لہٰذا انہیں پر خرچ کرنا لازم ہے۔