خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
چرم قربانی یا زکوٰۃ کا پیسہ لگایا جاسکتا ہے، ان صاحب نے جب یہ رقم لگانے کی اجازت دے دی، تو بستی والے اس ضد پر ہیں کہ چرم وغیرہ کا پیسہ لگایا جائے؟ آپ جواب تحریر فرمائیں کہ کیا حکم ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ اور چرم قربانی کی قیمت کا مصرف فقراء ہیں، اور اس کی ادائیگی کے لئے لازم ہے کہ فقراء ومستحقین کو بلا عوض مالک بنادیا جائے، اور تنخواہ میں اس رقم کا خرچ کرنابلا عوض نہیں؛ بلکہ خدمت کے عوض ہوتا ہے، اس لئے زکوٰۃ وچرم قربانی کا پیسہ براہِ راست مدرسین کی تنخواہ میں خرچ کرنا درست نہیں ، بستی والوں کو چاہئے کہ وہ تنخواہ کا انتظام امدادی چندہ سے کریں اور اس مقصد کے لئے صدقہ کی رقومات جمع نہ کریں۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] لأن الزکوٰۃ یجب فیہا تملیک المال لأن الإیتاء في قولہ تعالیٰ: {وَآتُوْا الزَّکوٰۃَ} یقتضي التملیک۔ (تبیین الحقائق ۲؍۱۱۸، البحر الرائق ۲؍۲۰۱ کوئٹہ) ویشترط أن یکون الصرف تملیکا … لا یصرف إلی بناء نحو مسجد ولا إلی کفن میت - إلی قولہ - لعدم التملیک وہو الرکن۔ (شامي ۳؍۲۹۱-۲۹۳ زکریا، ۲؍۳۴۴ کراچی) ولا یعطی أجر الجزار منہا؛ لأنہ کبیع؛ لأن کلا منہما معاوضۃ؛ لأنہ إنما یعطی الجزار بمقابلۃ جزرہ، والبیع مکروہ، فکذا ما في معناہ۔ (درمختار مع الشامي ۹؍۴۷۵ زکریا، البحر الرائق ۸؍۱۷۸، الہدایۃ، الأضحیۃ ۴؍۴۵۰) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۳؍۱۱؍۱۴۲۶ھسخت مالی بحران کے سبب حیلۂ تملیک کرکے زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہ دینا؟ سوال(۳۰۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے