خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
أو عجوزاً أحدہما أن یکون خروجہا مع زوجہا، أو مع ذي رحم محرم۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۴۷۵ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۹؍۱۱؍۱۴۳۲ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہعدت کے دوران حج کو جانا؟ سوال(۲۴۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زہراء خاتون اس سال حج بیت اللہ کے لئے جانا چاہتی تھیں کہ ابھی اچانک ان کے شوہر جناب نظام الدین صاحب کا انتقال ہوگیا، اب وہ اپنے بڑے لڑکے جمشید مامو کے ہمراہ حج بیت اللہ کو جانا چاہتی ہیں، ضروری امر طلب بات یہ ہے کہ ان کی عدت عیدالاضحی کو پوری ہوگی اور حج کے لئے روانگی عدت سے ۲۵؍دن پہلے ہوگی؛ لہٰذا ایسی حالت میں کیا زہراء خاتون حج کے لئے جاسکتی ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:عدت کے دوران حج کے سفر پر جانا درست نہیں ہے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں زہراء خاتون اس سال حج کو نہ جائیں۔ عن سعید بن المسیب أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ کان یرد المتوفی عنہ أزواجہن من البیداء، یمنعہن الحج۔ (الموطأ لإمام مالک، الطلاق / باب مقام المتوفی عنہا زوجہا في بیتہا حتی تحل ۳۷۷ رقم: ۸۸، شرح معاني الآثار ۲؍۴۴۵ رقم: ۴۴۸۲) عن مجاہد أن عمر وعثمان ردّا نسوۃ حاجّاتٍ ومعتمراتٍ، حتی اعتددن في بیوتہن۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، الحج / من کرہ لہا أن تحج في عدتہا ۸؍۵۰۴ رقم: ۱۴۶۷) ومع عدم عدۃ علیہا مطلقاً، أیۃ عدۃ کانت…، وفي الشامي: فلا یجب علیہا الحج إذا وجدت۔ (شامي ۲؍۴۶۵ کراچی، شامي ۳؍۴۶۵-۴۶۶ زکریا) المعتدۃ لا تسافر لحج۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۵؍۲۵۳ زکریا)