خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
الحقائق / باب صلاۃ المسافر ۱؍۵۱۱ دار الکتب العلمیۃ بیروت) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ۱۵؍۵؍۱۴۳۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ نوٹ: قارئین کے استفادہ کے لئے حضرت الاستاذ کا منیٰ و مزدلفہ میں قصر و اتمام سے متعلق اسلامی فقہ اکیڈمی کے فقہی سیمینار (منعقدہ ’’برہان پور‘‘ ۱۴۲۸ھ )کے لئے تحریر کیا گیا مقالہ پیش خدمت ہے۔(از مرتب)قصر واتمام کے مسئلہ میں کیا مکہ ومنیٰ ایک شہر شمار ہوگا؟ سوال(۱۶۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اس سے پہلے اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے بعض سمیناروں میں حج سے متعلق بعض مسائل پر بحث وتحقیق کے بعد فیصلے کئے گئے تھے اس وقت بھی حج سے متعلق ایک اہم مسئلہ پر شرعی بحث وتحقیق کے لئے آپ حضرات کو زحمت دی جارہی ہے، امیدہے کہ مسئلہ کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے پوری تحقیق وتفصیل سے جوابات تحریر فرمائیںگے، انشاء اﷲ آپ حضرات کی تحقیق اور علمی ریاضت زیر بحث مسئلہ میں کسی نتیجہ تک پہنچنے میں اکیڈمی کے لئے معاون ثابت ہوگی۔ یہ بات اہل علم پر مخفی نہیں کہ عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم اور اس کے بعد ادوار میں منیٰ کی آبادی مکہ مکرمہ سے بالکل الگ اور خاصے فاصلہ پر تھی، مکہ مکرمہ اور منیٰ کو دو الگ آبادی شمار کیا جاتا تھا، اس لئے اگر کوئی شخص مکہ اور منیٰ دونوں میں ملاکر پندرہ ایام کی قیام کی نیت کرتا تھا تو بھی اس پر مسافر کے احکام جاری ہوتے تھے، اور وہ مقیم کی امامت میں نماز ادا نہ کرنے کی صورت میں قصر کرتا تھا، یہ بات بھی اہل علم جانتے ہیں کہ حنفیہ کے نزدیک مسافر کے لئے قصر رخصت نہیں بلکہ عزیمت ہے۔ ادھر چند سالوں سے صورت حال میں تبدیلی آئی ہے مکہ مکرمہ کی آبادی بڑھتے بڑھتے منیٰ، بلکہ اس سے آگے تک پہنچ چکی ہے اور منیٰ سرکاری طور پر بلدیۂ مکہ مکرمہ کا حصہ قرار پاچکا ہے، اس صورت حال نے ایک بڑا اہم فقہی سوال یہ پیدا کردیا ہے کہ اب بھی مکہ اور منی الگ الگ آبادیاں مان