خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
تعمیر، تنخواہ اورغریب بچوں کی فیس میں زکوٰۃ کی رقم استعمال کرنا؟ سوال(۲۲۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہمارے یہاں دینی مکاتب ہیں، جن میں زکوٰۃ، چرم قربانی اور صدقۃ الفطر وصول کیا جاتا ہے، اور ان مکاتب میں بچوں سے فیس بھی وصول کی جاتی ہے، جن میں بہت سے بچے ایسے ہوتے ہیں جو فیس ادا نہیں کرسکتے، دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ زکوٰۃ، چرم قربانی اور صدقۃ الفطر کی رقم مدارس کی عمارت، مدرسین کی تنخواہ اور بچوں کی فیس میں لگ سکتی ہے یا نہیں؟ اگر بچوں کی فیس میں یہ رقم لگ سکتی ہے تو اس کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ کی رقم تعمیر وتنخواہ مدرسین کی مد میں خرچ نہیں کی جاسکتی، اس رقم سے نادار بچوں (جن کے والدین بھی غریب ہوں) کی فیس دی جاسکتی ہے، اس کا طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ پہلے وہ رقم بچوں کو یا ان کے اولیاء کو دے دی جائے، پھر وہ اپنے طور پر فیس جمع کرادیں۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] فلا یجوز صرفہا إلی غیرہم من بناء مساجد وإصلاح طریق، أو کفن میت؛ لأن اللّٰہ تعالیٰ خصَّہم بہا بقولہ: {اِنَّمَا} وہي للحصر تثبت المذکور وتنفي ما عداہ۔ (الکافي في فقہ الإمام أحمد / باب ذکر الأصناف التي تدفع الزکاۃ لہم ۱؍۴۲۳ الشاملۃ) عن الثوري: الرجل لایعطي زکاۃ مالہ … ولا بناء مسجد ولا شراء مصحف ولا یصح بہا۔ (المصنف لعبد الرزاق / باب لمن الزکاۃ ۴؍۱۱۳ رقم: ۷۱۷۰) إذ دفع الزکاۃ إلی الفقیر لا یتم الدفع ما لم یقبضہا، أو یقبضہا للفقیر من لہ ولایۃ علیہ نحو الأب والوصي۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۹۰) ویجوز صرفہا إلی من لا یحل لہ السوال إذا لم یملک نصابا۔ (الفتاویٰ