خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
واضح ہوئیں: (۱) یہ توکیل خوش دلی سے نہیں ہوگی؛ بلکہ جبریہ ہوگی؛ اس لئے اس کے ذریعہ سے مصرف اور غیر مصرف میں زکوٰۃ کا استعمال شبہ سے خالی نہیں۔ (۲) اس طریقۂ کار کے رواج سے غیر محتاط ذمہ دارانِ مکاتب ومدارس زکوٰۃ کی رقومات کا بے دریغ اپنی مرضی سے جہاں چاہیںگے استعمال کریںگے، اور جو تھوڑی بہت احتیاط اس وقت تک ہورہی ہے وہ بھی ختم ہوجائے گی، اس لئے ہماری نظر میں یہ فرضی توکیل کافی نہیں ہے، اس کی وجہ سے تملیک کی شرط بے اثر ہوکر رہ جائے گی، حالاںکہ وہ ادائیگی زکوٰۃ کی بنیادی شرط ہے؛ لہٰذا تملیک کی بہترین شکل یہی ہے کہ طلبہ کو وظیفہ کے نام پر رقم دے کر فیس کے نام پر وصول کرلی جائے۔ عن عطاء بن یسار أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا تحل الصدقۃ لغني إلا لخمسۃ … أو لرجل کان لہ جار مسکین فتصدق علی المسکین فأہداہا المسکین لغني۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۲۳۱ رقم: ۱۶۳۵، سنن ابن ماجۃ ۱؍۱۳۲ رقم: ۱۸۴۱) والحیلۃ أن یتصدق علی الفقیر ثم یأمرہ بفعل ہٰذہ الأشیاء۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۲۹۳ زکریا) وحیلۃ التکفین بہا التصدق علی فقیر ثم ہو یکفن فیکون الثواب لہما۔ (شامي ۲؍۲۷۱ کراچی، فتاویٰ دار العلوم ۶؍۱۹۷، کتاب المسائل ۲؍۲۷۳) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲؍۸؍۱۴۲۵ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہغریب طالبات کو زکوٰۃ کی رقم سے وظیفہ دے کر بطورِ فیس ان سے واپس لینا؟ سوال(۲۸۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے