خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
والأعمام والعمات والأخوال والخالات الفقراء؛ بل ہم أولی لما فیہ من الصلۃ مع الصدقۃ۔ (طحطاوي علی مراقي الفلاح ؍۳۹۳، کذا في الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۹۰) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱؍۹؍۱۴۱۹ھمال دار شخص کا اپنے طالب علم بیٹے کو زکوٰۃ اور چرم قربانی کی رقم دینا؟ سوال(۲۱۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر کوئی آدمی مال دار ہو اور اس کے اوپر حج وزکوٰۃ وغیرہ فرض ہوچکا ہو اور اس کا بالغ لڑکا مدرسہ میں پڑھتا ہو تو اس کے لڑکے کے لئے اپنے والد صاحب کا زکوٰۃ یا قربانی کے چمڑے کا پیسہ لینا جائز ہوگا یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: طالبِ علم کا اپنے والد سے زکوٰۃ یا چمڑے کا پیسہ اپنے لئے وصول کرنا اور والد کو اس کو اپنی زکوٰۃ وغیرہ دینا شرعاً جائز نہیں ہے، اگر والد نے اپنے بیٹے کو اپنی زکوٰۃ دی تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ قال علي بن ابي طالب رضي اللّٰہ عنہ: لیس لوالد حق في صدقۃ مفروضۃ، ومن کان لہ ولد أو والد فلم یصلہ فہو عاق۔ (السنن الکبری للبیہقي ۱۰؍۱۳۰ رقم: ۱۳۵۰۹) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما یقول: لا بأس بأن تضع زکاتک في موضعہا، إذا لم تعط منہا أحدًا تعولہ أنت فلا بأس بہ۔ (المصنف لعبد الرزاق ۴؍۱۱۲ رقم: ۷۱۶۳ بیروت) ولا یدفع المزکي زکاتہ إلی أبیہ وجدہ وإن علا، ولا إلی ولدہ وإن سفل۔ (البحر الرائق ۲؍۲۴۳، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸، الجوہرۃ النیرہ ۱؍۱۳۱، شامي ۳؍۲۹۴ زکریا) ولایعطي من الزکاۃ والداً وإن علا، ولا ولداً وإن سفل من قبل الذکور