خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
معنی العبادۃ … في جامع الصغیر: کل أرض فتحت عنوۃ فوصل إلیہا ماء الأنہار فہي أرض خراج، وما لم یصل إلیہا ماء الأنہار و استُخرج منہا عین فہي أرض عشر۔ (ہدایۃ، کتاب السیر / باب العشر والخراج ۲؍۵۷۴ مکتبۃ بلال دیوبند، کذا في الدر المختار مع الشامي، کتاب الجہاد / باب العشر والخراج ۶؍۲۹۰ زکریا، مجمع الأنہر ۱؍۶۶۱ دار إحیاء التراث العربي) وکذلک کل أرض أسلم علیہا أہلہا طوعا۔ وفي الحجۃ: بلا قتال ولا دعوۃ إلی الإسلام فإنہا تکون عشریۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۸۷ رقم: ۴۳۹۴ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۳؍۵؍۱۴۲۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہکیا عشری زمین کا چالسواں حصہ نکالنے سے عشر ساقط ہوجائے گا؟ سوال(۳۲۸):- کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا عشری زمین کی پیداوار کا چالیسواں حصہ نکالنے سے عشر ساقط ہوجائے گا؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب باللّٰہ التوفیق: اگر کسی جگہ واقعۃً عشری زمین پائی جائے، تو اگر اس کو قدرتی پانی مثلاً بارش یا دریا سے سیراب کیا جاتا ہے، تو کل پیداوار کا دسواں حصہ نکالنا واجب ہے، اور اگر اس زمین کو ٹیوب ویل وغیرہ کے پانی سے سینچا جاتا ہے، تو اس کل پیداوار میں سے بیسواں حصہ نکالنا ضروری ہے؛ لہٰذا اگر ایسی زمین کی آمدنی میں سے صرف چالیسواں حصہ نکالاجائے گا تو کافی نہ ہوگا؛ بلکہ درج بالا تفصیل کے مطابق پورا حصہ نکالنا ضروری ہوگا۔ أخرج البخاري عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: فیما سقت السماء والعیون أو کان عشریا، العشر وما سقي بالنضح نصف العشر۔ (صحیح البخاري ۱؍۲۰۱، سنن الترمذي ۱؍۱۳۹)