خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ولا تجوز الزکاۃ إلا إذا قبضہ الفقیر… لأن التملیک لا یتم بدون القبض۔ (الفتاویٰ الولوالجیۃ، کتاب الزکاۃ ۱؍۱۷۹ دار الکتب العلمیۃ بیروت) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۱؍۸؍۱۴۱۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہکیا چھوٹے مکاتب اور مساجد میں زکوٰۃ لگانا درست ہے؟ سوال(۲۶۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مدرسہ میں بیرونی طلبہ نہ ہوں اور نہ ہی مستحق طلبہ کہ جن پر زکوٰۃ فطرہ چرم قربانی ودیگر صدقات وعطیات کی رقومات خرچ کی جاسکے، امام صاحب کو اس صورت میں مذکورہ رقومات اکٹھا کرکے مسجد کے وضو خانہ میں لگانا، یا مسجد کے کسی کام میں لگانا جائز ہوگا یا نہیں؟ البتہ محلے کے بچے مسجد میں پڑھتے ہیں، تو ان پر خرچ کرنا کسی صورت میں جائز ہے؟ ایسا غلط کرنے والے کے پیچھے نماز ادا کرنا کیسا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جن مدارس ومکاتب میں زکوٰۃ کے مصارف نہ ہوں اُن کے لئے زکوٰۃ، فطرہ اور چرمِ قربانی کی قیمت وصول کرنا جائز نہیں ہے، اس طرح کی رقومات مسجد کے کسی کام میں بھی نہیں لگائی جاسکتی ہیں؛ البتہ اگر مدرسہ ضرورت مند جگہ پر واقع ہو اور امدادی فنڈ سے مدرسہ کی ضروریات مثلاً استاذ کی تنخواہوں کا انتظام نہ ہوسکتا ہو تو تملیک کرکے زکوٰۃ وفطرہ کی رقم تنخواہوں میں لگائی جاسکتی ہے، اور امام کو چاہئے کہ وہ خوش اخلاق ہو اور مقتدیوں کے ساتھ نرم روی کا معاملہ کرے، اور مقتدیوں کو چاہئے کہ وہ حکمتِ عملی کے ساتھ امام صاحب کو سمجھانے کی کوشش کریں اور بلا وجہ امام کو بدنام کرنے سے باز آئیں۔ (مستفاد: فتاویٰ دارالعلوم ۶؍۲۱۹-۲۰۸-۲۳۰، محمودیہ ۹؍۵۹۴ ڈابھیل، کفایت المفتی ۴؍۲۶۰، احسن الفتاوی ۴؍۲۸۲، فتاویٰ رشیدیہ ۴۴۳کتاب الفتاویٰ ۳؍۳۰۶، إمداد المفتیین ۴۶۴، إمداد الفتاوی ۲؍۱۸)