خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
آمد ورفت بھی لگی رہتی ہے، آیا مدرسہ کے فنڈ سے ان پر صرفہ کرنا جائز ہے یا نہیں، جب کہ وہ زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہیں، اور حیلہ تملیک مجبوری کی درج کی چیز ہے۔ الضرورات تتقدر بقدر الضرورۃ کا تقاضہ ہے کہ ہر مہمان پر جائز نہیں ہونا چاہئے؛ کیوںکہ اس پر ضرورت کی تعریف صادق نہیں آرہی ہے، اسی طرح اسٹیشنری کا سامان غریبوں کو نہیں پہنچتا، امیروں کو پہنچتا ہے، جب کہ وہ بھی اس رقم سے چھپتا ہے، کیا امیروں کو اس کا دینا جائز یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ کی رقم مہمانوں اور اسٹیشنری پر خرچ کرنی جائز نہیں ہے، اس مصرف میں صرف مدرسہ کی امدادی رقومات خرچ ہونی چاہئیں، جو اہل مدرسہ اس بارے میں احتیاط نہیں کرتے وہ عند اللہ مسئول ہوںگے۔ (مستفاد: فتاویٰ رحیمیہ ۶؍۷۷) الزکاۃ یجب فیہا تملیک المال؛ لأن الإیتاء في قولہ تعالیٰ: {وَاٰتُوا الزَّکَاۃَ} یقتضي التملیک۔ (البحر الرائق ۲؍۲۰۱ کوئٹہ) ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃً۔ (درمختار ۳؍۲۹۱ زکریا) لا یجوز الزکاۃ إلا إذا قبضہا الفقیر أو قبضہا من یجوز القبض لہ لولایتہ علیہ۔ (المحیط البرہاني ۳؍۳۱۴) ولا تجوز الزکاۃ إلا إذا قبضہ الفقیر… لأن التملیک لا یتم بدون القبض۔ (الفتاویٰ الولوالجیۃ، کتاب الزکاۃ ۱؍۱۷۹ دار الکتب العلمیۃ بیروت) ولا یجوز الزکاۃ إلا بقبض الفقراء أو بقبض من یکون قبضہ قبضاً لہم۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۶ رقم: ۴۱۳۶ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۶؍۴؍۱۴۲۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہزکوٰۃ کی رقم سے افطاری اور سحری کرانا؟ سوال(۲۰۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے