خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
التاسع: وجود العذر قبل الإحجاج فلو أحج صحح ثم عجز لا یجزیہ، العاشر: أن یحج راکباً، فلو حج ماشیاً ولو بأمرہ ضمن النفقۃ۔ (الرد المحتار / باب الحج عن الغیر ۴؍۱۷ زکریا) وبشرط نیۃ الحج أي عن الأمر فیقول: أحرمت عن فلان ولبَّیت عن فلان ولو نسي إسمہ فنویٰ عن الآمرصح، وتکفی نیۃ القلب۔ (الدر المختار ۴؍۱۵ زکریا) وبقي من الشرائط النفقۃ من مال الآمر کلہا أو أکثرہا، وحج المأمور بنفسہ وتعیینہ إن عینہ۔ (در مختار / باب الحج عن الغیر ۴؍۱۶ زکریا) وفي الذخیرۃ: ثم إنما یسقط فرض الحج عن الإنسان باحجاج غیرہ إذا کان المحج وقت الأداء عاجزا عن الأداء بنفسہ، و دام عجزہ إلی أن مات، أما إذا زال عجزہ بعد ذٰلک فلا یسقط عنہ حج الفرض۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ / باب الحج عن الغیر ۲؍۵۴۵، إدارۃ القرآن کراچی، بدائع الصنائع ۲؍۴۵۵، نعیمیہ دیوبند) اور جو حج بدل دوسرے کی طرف سے تبرعاً کیا جاتا ہے وہ اصل میں نفلی حج ہوتا ہے، اس لئے اس میں اس طرح کے شرائط نہیں ہیں۔ الحج التطوع عن الصحیح جائز ویکون الحج عن المحج۔ (شامي / باب الحج عن الغیر ۲؍۶۰۳ کراچی، انوار مناسک ۵۵۹) وأما النفل فلا یشترط فیہ شيء منہا۔۔ (شامي / باب الحج عن الغیر ۴؍۱۸ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۵؍۳؍۱۴۳۶ھحج بدل کرانا کب لازم ہوتا ہے سوال(۱۹۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں