خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
عند الاحناف صدقۂ فطر میں صاع عراقی معتبر ہے سوال(۳۴۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: صدقۂ فطر میں کس صاع کا اعتبار کیا گیا ہے؟ ائمۂ کرام ومجتہدین کا اختلاف قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل واضح کریں۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک صاع عراقی معتبر ہے جو قدیم حساب کے اعتبار سے ۲۷۰؍ تولہ کا ہوتا ہے۔ اور جدید اوزان کے اعتبار سے ۳؍ کلو ۱۴۹؍ گرام ۲۸۰؍ ملی گرام ہے۔ (جواہر الفقہ اوزان شرعیہ ۲۲۴) والصاع عند أبي حنیفۃ ومحمد ثمانیۃ أرطالٍ بالعراقي … ولنا ما روي أنہ علیہ السلام کان یتوضأ بالمد رطلین ویغسل بالصاع ثمانیۃ أرطالٍ، وہٰکذا کان صاع عمر رضي اللّٰہ عنہ۔ (ہدایۃ ۱؍۲۱۰، والحدیث: أخرجہ الإمام الدار قطني في سننہ ۲؍۱۳۴ رقم: ۲۱۱۹، والبیہقي في سننہ الکبریٰ ۴؍۲۸۷ رقم: ۷۷۲۴) اختلف في الصاع فقال الطرفان: ثمانیۃ أرطالٍ بالعراقي، وقال الثاني خمسۃ أرطال وثلاث، وقیل: لا خلاف؛ لأن الثاني قدرہ برطل المدینۃ؛ لأنہ ثلاثون استاراً، والعراقی عشرون، وإذا قابلت ثمانیۃ بالعراقي بخمسۃ وثلاث بالمدیني وجدتہما سواء۔ (رد المحتار علی الدر المختار شرح تنویر الأبصار / باب صدقۃ الفطر ۳؍۳۲۰ زکریا) وہو ثمانیۃ أرطال بالعراقي، والعراقي مائۃ وثلاثون درہماً، فالصاع ما یسع ألفاً وأربعین درہماً، وقول أبي یوسف: الصاع ما یسع خمسۃ أرطال وثلثاً مرادہ بالرطل رطل المدینۃ وہو ثلاثون أستاراً و رطل العراق عشرون أستاراً فیکون المجموع علی القولین مائۃ وستین أستاراً، والأستار ستۃ دراہم ونصف۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقيالفلاح ۳۹۵ کراچی) قال ابن الأثیر: الصاع مکیال یسع أربعۃ أمداد، والمد مختلف فیہ …