خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
جس کے پاس دو منزلہ مکان ہو اس پر فطرہ واجب ہے یا نہیں؟ سوال(۳۴۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شخص کے مکان کے دو حصے یا دو منزل ہیں، ایک میں وہ رہتا ہے، دوسرا کرایہ پر ہے، تو اس شخص پر فطرہ واجب ہوگا یانہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: صدقۂ فطر کے وجوب کا مدار مکان کی ملکیت پر نہیں ہے؛ بلکہ نصاب کے بقدر عید کے دن ضرورتِ اصلیہ سے زائد مال کی ملکیت پر ہے۔ بریں بنا اگر مذکورہ شخص کے پاس عید کے دن روپیہ پیسہ یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد مال ہو تو فطرہ واجب ہے ورنہ نہیں۔ قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صدقۃ إلا عن ظہر غنًی۔ (ذکرہ البخاري تعلیقاً ۱؍۳۸۴، وقد وصلہ الإمام أحمد في مسندہ عن أبي ہریرۃ ۲؍۲۳۰) یجب علی کل مسلم ذي نصابٍ فاضلٍ عن حاجتہ الأصلیۃ، کدینہ وحوائج عیالہ بطلوع فجر الفطر۔ (تنویر الأبصار مع الدر ۳؍۳۱۰-۳۲۲ زکریا) باب صدقۃ الفطر: تجب علی حر مسلم مکلف مالک لنصاب أو قیمتہ، وإن لم یحل علیہ الحول عند طلوع فجر یوم الفطر ولم یکن للتجارۃ فارغ عن الدین وحاجتہ الأصلیۃ وحوائج عیالہ۔ (نور الإیضاح علی مراقي الفلاح / باب صدقۃ الفطر ۲۶۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت) ولا تجب ہٰذہ الصدقۃ إلا علی حر مسلم غني، والغنی أن یملک نصاباً أو ما قیمتہ قیمۃ النصاب فاضلاً عن مسکنہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۴۵۳ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۸؍۱۱؍۱۴۳۱ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفااﷲ عنہ