خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
إبراہیم قال: إذا صلیت یوم عرفۃ في رحلک فصل کل واحدۃ من الصلاتین لوقتہا وترتحل من منزلک حتی تفرغ من الصلاۃ، قال محمد: وبہٰذا کان یأخذ أبو حنیفۃ … وکذٰلک بلغنا عن عائشۃ أم المؤمنین وعبد اللّٰہ بن عمرو عن عطاء بن أبي رباح وعن مجاہد۔ (الموطأ لإمام محمد ۵۲، إعلاء السنن ۱۰؍ ۱۲۱) عن ہمام أن نافعا حدثہ أن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما کان إذا لم یدرک الإمام یوم عرفۃ جمع بین الظہر والعصر في منزلہ ۔ (ذکرہ البخاري تعلیقا، کتاب الحج / باب الجمع بین الصلاتین بعرفۃ) وبہذا قال الجمہور: وخالفہم في ذٰلک النخعي والثوری وأبو حنیفۃ فقالوا: یختص الجمع بمن صلی مع الإمام وخالف أبا حنیفۃ في ذٰلک صاحباہ والطحاوي و من أقویٰ الأدلۃ لہم - أي الجمہور - صنیع ابن عمر ہٰذا، قالہ الحافظ في الفتح (۳؍۴۱۰) ولأبي حنیفۃ أن المحافظۃ علی الوقت فرض بالنصوص فلا یجوز ترکہ إلا فیما ورد بہ الشرع وہو الجمع بالجماعۃ مع الإمام۔ (ہدایۃ ۱؍۳۷۱، إعلاء السنن ۱۰؍۱۲۱-۱۲۲ بیروت) ولو فقد شرط منہا یصلي کل صلاۃ في الخیمۃ علی حدۃ في وقتہا بجماعۃ أو غیرہا۔ (غنیۃ الناسک ۱۵۳، ومثلہ في الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۵۰۷ زکریا، درمختار مع الشامي ۳؍۵۲۱ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۲۸) وفي منسک ابن العجمي: المراد بالإمام الإمام الأعظم، أما إمام الرفقۃ فلا یجوز الجمع معہ عند أبي حنیفۃؒ۔ (البحر العمیق ۳؍۱۴۸۸) وفي الزیادات: والصحیح قول أبي حنیفۃؒ۔ (البحر العمیق ۳؍۱۴۸۳، ہدایۃ ۲-۱۹۴-۱۹۵ مکتبۃ البشریٰ کراچی) ائمہ ثلاثہ اور حنفیہ میں سے حضراتِ صاحبینؒ (امام ابویوسف اور امام محمدؒ) کے نزدیک چوں کہ عرفات میں جمع بین الصلاتین کے جواز کے لئے امام الحج کی امامت شرط نہیں ہے؛ لہٰذا ان