خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
اقتداء میں دونوں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا درست ہوگا، مسئلہ یہ ہے کہ عام حاجی کو اس بارے میں عموماً کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا، اور جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ بھی سنی سنائی تک ہی محدود ہوتا ہے، معتبر خبر نہیں ہوتی۔ مجھ تک حنفی علماء کا زبانی قول پہنچا ہے کہ مسجد نمرہ میں ظہر عصر کی نماز جمع کرکے امام کے ساتھ ادا کریں اور اگر اپنے خیموں میں نماز ادا کریں تو ظہر کی ظہر کے وقت اور عصر کی نماز عصر کے وقت ادا کریں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہمارے علم کے مطابق آج کل ’’مسجد نمرہ‘‘ میں نماز پڑھانے کے لئے سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آل شیخ ریاض سے تشریف لاتے ہیں؛ لہٰذا مسجد نمرہ میں ان کی اقتداء میں ظہر وعصر کی نماز جمع کرکے پڑھنا بالاتفاق جائز ہے؛ البتہ جو حضرات ’’مسجد نمرہ‘‘ میں نہ جاسکیں اور اپنے خیموں میں مقیم ہوں، تو حنفیہ کے راجح قول کے اعتبار سے ان کو ظہر کی نماز اپنے وقت میں اور عصر کی نماز اپنے وقت میں ادا کرنی چاہئے، جمع نہیں کرنی چاہئے۔ (مستفاد: کتاب المسائل ۳؍۲۹۶، انوار مناسک ۴۲۲) أخرج مسلم وأبو داؤد وابن ماجۃ حدیث جابر الطویل - واللفظ للأول ففیہ ثم أذن، ثم أقام فصلی الظہر، ثم أقام فصلی العصر، ولم یصل بینہما شیئا، ثم رکب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، حتی أتی الموقف الخ۔ (صحیح مسلم ۱؍۳۹۷ رقم: ۱۲۱۸، سنن أبي داؤد ۱؍۲۶۳ رقم: ۱۹۰۵، سنن ابن ماجۃ ۲؍۲۲۲ رقم: ۳۰۷۴) والحاصل أن مکان الجمع ہو المسجد وما في معناہ اتفاقاً، فإن کان المسجد في عرفۃ فہو في عرفۃ وما قرب منہا لأنہ في حکمہا فجملۃ الشروط ستۃ … ولو فقد شرط منہا یصلي کل صلاۃ في الخیمۃ علی حدۃ في وقتہا بجماعۃ أو غیرہا۔ (غنیۃ الناسک ۱۵۳) وشرط لصحۃ ہذا الجمع الإمام الأعظم أو نائبہ وإلا صلوا وحدانا۔