خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
حدیث کا مقصد یہ ہے کہ منیٰ میں ذاتی رہائش گاہ نہ بنائی جائے، عارضی تعمیر یا مکہ کے تابع ہونے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح شامی کی عبارت: ’’بخلاف البساتین‘‘ سے وہ باغات اور کھیت مراد ہیں کہ جن کو اس مقصد کے لئے مقرر نہیں کیا گیا؛ بلکہ عارضی طور پر وہاں فوج آکر ٹھہرگئی اور جو میدان کسی خاص مقصد کے لئے خالی چھوڑا گیا ہو وہ یقینا فناء میں داخل ہے، جب کہ وہ متصل ہوچکا ہو۔ ب:- مذکورہ مضمون میں ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ منیٰ شعائر میں سے ہے اور اس کے کسی حکم میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، خواہ وہ ضمنی حکم ہی کیوں نہ ہو، اور اس کی تائید میں مسعیٰ کی موجودہ کیفیت کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے، حالاںکہ یہ دلیل منیٰ اور مزدلفہ کے توابع مکہ ہونے کی مؤید ہے؛ اس لئے کہ بالاتفاق مسجد حرام میں پڑھی جانے والی جماعت کی نماز کی جو صفیں مسعیٰ کی حدود کے اندر تک پہنچ جائیں، ان صفوں کو متصل ہی کہا جائے گا، اور حدودِ مسعیٰ میں پڑھنے والے نمازیوں کو جماعت کا ثواب ملے گا، اور اتصالِ صفوف کی وجہ سے مسعیٰ اور مسجد حرام کو مقام واحد کا درجہ دیا جائے گا، اور یہ کہا جائے گا کہ جو لوگ حدودِ مسعیٰ میں کھڑے ہیں، ان کا حدودِ مسجد میں کھڑے ہونے والے نمازیوں سے کوئی تعلق نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ مسعیٰ کے مسجد سے الگ ہونے کے باوجود کوئی ضمنی حکم اس پر مرتب ہوسکتا ہے، بعینہٖ یہی معاملہ منیٰ کے بارے میں ہے کہ منیٰ کی حدود توقیفی ہیں، ان میں تبدیلی کا کسی کو اختیار نہیں، ہاں جب اتصالِ آبادی ہوگا، تو قصر واتمام کا حکم بدلے گا، تو یہ عجیب بات ہے کہ جو دلیل منیٰ کو تابع ماننے کی مؤید تھی، فاضل مضمون نگار نے زور بیان میں اس کا رخ ہی بدل ڈالا، اگر فاضل مضمون نگار کی بات مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اتصالِ صفوف کے باوجود مسعیٰ میں نماز پڑھنے والے نمازیوں کی صفیں منقطع مانی جائیں، حالاںکہ اس کا کوئی قائل نہیں۔ ان سب تفصیلات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضرور ملحوظ رکھنی چاہئے کہ خود صاحب مضمون اس بات کا اقرار فرما رہے ہیں کہ یہ مسئلہ اختلافی ہوگیا ہے، اب اس اختلافی مسئلہ کی بنیاد پر منیٰ میں