خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
وإن کان إحداہما تبعاً للاٰخر حتی تجب الجمعۃ علی سکانہ یصیر مقیماً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۴۰، بدائع الصنائع ۱؍۱۷۰ زکریا) اور مظاہر علوم کے مضمون میں منیٰ اور مکہ کے الگ الگ مقام ہونے کے جو دلائل دئے گئے ہیں، ان سے ہمیں اتفاق نہیں؛ کیوںکہ: الف:- اس مضمون میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ میدان کا آبادی سے اتصال نہیں ہوتا، حالاںکہ یہ دعویٰ صحیح نہیں، خود فتاویٰ شامی میں ہے کہ بڑے شہر کے ملحق فناء میں گھڑ دوڑی کے میدان، فوج ٹھہرنے کا علاقہ، اور چاند ماری کا علاقہ سب شامل ہوںگے، حالاںکہ یہ کئی کئی میل کا خالی رقبہ ہوسکتا ہے، پھر بھی اسے توابع مصر میں مانا گیا ہے، اور منیٰ یقینا ایسے ہی علاقہ میں داخل ہے؛ کیوںکہ اس علاقہ میں اب سال بھر چہل پہل رہتی ہے، اور اس کے میدان پارکنگ کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ عبارت ملاحظہ فرمائیے: فالقول بالتحدید بمسافۃ یخالف التعریف المتفق علیٰ ما صدق علیہ بأنہ المعد لمصالح المصر قد نص الأئمۃ علی أن الفناء ما أعد لدفن الموتیٰ وحوائج المصر کرکض الخیل والدواب وجمع العساکر والخروج للرمي وغیر ذٰلک، وإلی موضع یحد بمسافۃ یسع عساکر مصر ویصلح میداناً للخیل والفرسان ورمي النبل والبندوق البارود وافتاء المدافع وہٰذا یزید علی فراسخ، فظہر أن التحدید بحسب الأمصار۔ (شامي ۳؍۹ زکریا) أقول: وینبغي تقیید ما في الخانیۃ والتاترخانیۃ بما إذا لم یکن في فناء المصر لما مرّ أنہا تصح إقامتہا في الفناء ولو منفصلاً بمزارع فإذا صحت في الفناء؛ لأنہ ملحق بالمصر یجب علی ما کان فیہ أن یصلیہا؛ لأنہ ممن أہل المصر کما یعلم من تعلیل البرہان۔ (شامي ۳؍۲۶ زکریا) اور مضمون میں جو حدیث پیش کی گئی ہے، اس کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں؛ کیوںکہ