خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
لیکن ماہنامہ مظاہر علوم اکتوبر ۲۰۱۱ء میں کا مناسک حج پر ایک مضمون پڑھ کر بڑی الجھن میں پھنس گیا؛ کیوںکہ اس مضمون میں فاضل مضمون نگار نے فرمایا کہ حاجی منیٰ روانگی سے پندرہ روز پہلے مکہ مکرمہ پہنچے اور منیٰ روانگی تک وہیں قیام کی نیت ہو تو وہ شرعی مقیم ہے۔ موصوف نے مزید فرمایا کہ علماء دیوبند بالخصوص دار العلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور کے موجودہ اربابِ افتاء کا یہی موقف ہے۔ بندہ ناچیز کی نظر میں مدرسہ شاہی مرادآباد اور یہاں کے انتہائی لائق وفائق اساتذۂ کرام بھی مسلک دیوبند کی واقعۃً نمائندگی اور پرزور ترویج کرتے ہیں، اس لئے فتویٰ میں یہ اختلاف بہت ہی شاق گذرا۔ مظاہر علوم کے مضمون میں جو باتیں زور دے کر کہی گئی ہیں، وہ یہ ہیں: (۱) منی خالی میدان ہے اور میدان کا آبادی سے اتصال نہیں ہوتا۔ (۲) منی شعائر میں سے ہے، اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ آنجناب سے گذارش ہے کہ اپنی رائے سے مطلع فرمائیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: فقہی عبارات اور مشاہدہ کی روشنی میں ہماری حتمی رائے یہی ہے کہ منیٰ اور مزدلفہ موجودہ دور میں مکہ معظمہ کے توابع اور ملحق علاقوں میں شامل ہوچکے ہیں، اور کسی بھی شہری علاقہ کے حدود کی تعیین میں یا تو اس علاقہ کے عرف کا اعتبار ہوتا ہے یا حکومت کی صراحت کا اعتبار ہوتا ہے، اور موجودہ زمانہ میں اہل مکہ کے عرف اور سعودی حکومت کے اس واضح اعلان کے بعد کہ منیٰ مکہ معظمہ کا ایک محلہ ہے، اب کسی کے لئے اس سے انکار کی گنجائش نہیں، اس بارے میں تفصیلی مضمون ندائے شاہی فروری ۲۰۱۱ء میں چھپا تھا، جس میں سعودی وزیر داخلہ اور علماء اعیان کی آراء پیش کی گئی تھیں، بعد میں یہی مضمون کتاب المسائل ۳؍۲۷۶-۲۸۰ میں شائع ہوا ہے۔ بریں بنا اب جو شخص حج کو جائے گا اس کے لئے قصر واتمام کے مسئلہ میں مکہ اور منیٰ ومزدلفہ ایک ہی جگہ کے درجہ میں ہوںگے، اور مجموعی قیام کا اعتبار کیا جائے گا، اس بارے میں اصولی عبارت یہ ہے: