خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
کرنے والے حق پر نہیں ہیں؛ لہٰذا اگر وہ قصر کرنے والوں کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھ کر اپنی ما بقیہ نماز پوری کریںگے تو یہ اقتدا صحیح نہ ہوگی؛ کیوں کہ ان کی نظر میں امام نے ناقص فریضہ ادا کیا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی حنبلی امام جو مکہ کا باشندہ ہو، اگر وہ اپنے مسلک کے مطابق نُسُک کو موجب قصر سمجھتے ہوئے مسجد خیف میں چار رکعت والی نماز دو رکعت پڑھائے تو کسی حنفی مقتدی کے لئے اس کی اقتدا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ امام نے مقتدی کے خیال میں ناقص فریضہ ادا کیا ہے، اسی طرح کی بات مسئولہ صورت میں بھی کہی جائے گی؛ لہٰذا جس گروپ میں اتمام وقصر میں اختلاف کرنے والے موجود ہوں تو بہتر شکل یہ ہے کہ امام ایسے شخص کو بنایا جائے جو اتمام کا قائل ہو اور قصر کے قائلین بھی اس کی اقتدا میں نماز پڑھیں تو ان کی نماز یقینا ادا ہوجائے گی۔ اور اگر اس پر اتفاق نہ ہوسکے تو پھر جو لوگ جس رائے کو حق سمجھتے ہوں اسی کے مطابق الگ الگ جماعت بنا کر نماز پڑھتے رہیں اور باہم نزاع نہ کریں۔ (مستفاد: آپ کے مسائل اور ان کا حل محقق ومدلل ۵/ ۳۵۳- ۳۵۶) ثم إن کان الإمام مقیما أتم الصلاۃ وأتم معہ المسافرون أیضا، أي وکذا المقیمون … والحاصل أن الإمام إن کان مقیما فلا یجوز القصر للمسافرین والمقیمین، وإن کان مسافرا فلا یجوز القصر للمقیمین ولا یجوز للمقیم أي ولو کان إماما أن یقصر الصلاۃ أي لإختصاص القصر بالمسافر إجماعا وإنما الخلاف في کون الجمع للنسک والسفر ولا للمسافر أن یقتدی بہ أي بالمقیم إن قصر أي لعدم صحۃ صلاتہ بالقصر۔ (مناسک ملا علي القاري ۱۹۴- ۱۹۵، غنیۃ الناسک ۱۹۵ سہارنفور) فالحق ماعلیہ الجمہور أن القصر بمنی وعرفات کان للسفر لا لکونہ من مناسک الحج۔ (إعلاء السنن ۱۰؍۴۱۱ کراچي، کتاب المسائل ۳؍۲۸۳) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۵؍۵؍۱۴۳۵ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ