خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
صلاۃ المقیم أربعا والمسافر رکعتین … فیقصر إن نوی الإقامۃ في أقل منہ أي في نصف شہر … ولم یذکر وطن السکنی وہو ما نوی فیہ أقل من نصف شہر لعدم فائدتہ۔ (درمختار ۲؍۵۹۹-۶۱۵ زکریا) ب:- بارہ ذی الحجہ کو منی سے مکہ مکرمہ آکر ۲۳؍ دن قیام کرنے کا ارادہ ہے اور ۱۷؍ ذی الحجہ کو جدہ جانے کا ارادہ ہے تو جدہ جانے کی وجہ سے مکہ میں مقیم بننے میں کوئی فرق نہیں آئے گا؛ اس لئے کہ اب جدہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان سفر شرعی کی مسافت نہیں رہی ہے؛ لہٰذا ایسے حجاج کرام مکہ مکرمہ میں شرعی طور پر مقیم ہی شمار کئے جائیںگے۔ اور اگر جدہ اس ارادے سے جائیں کہ وہاں سیر وتفریح کرکے یا اپنی ضروریات پوری کرکے واپس رات تک مکہ مکرمہ ہی آنا ہے، پھر جدہ جانے کے بعد واپسی میں رات ہوجائے اور رات کا کچھ حصہ سونے میں بھی گذر جائے مگر ارادہ رات گذانے کا نہیں تھا جیسا کہ سوالنامہ میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ جدہ کا سفر صبح سے لے کر ۱۲؍ بجے رات کے درمیان درمیان ہی ہوتا ہے، وہاں پر رات گذارنے کا ارادہ نہیں ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں بدستور مقیم رہیں گے مسافر نہیں بنیں گے، ہاں البتہ اگر حج سے قبل مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی یہ ارادہ رہا ہو کہ سترہ ذی الحجہ کو ایک رات جدہ میں جاکر بھی گذارنا ہے، تو ایسی صورت میں ۵؍ ذی الحجہ سے ۱۷؍ ذی الجہ کے درمیان ۱۵؍ دن پورے نہیں ہوتے ہیں؛ اس لئے سب کے نزدیک ۱۷؍ ذی الحجہ تک یہ حجاج کرام مسافر ہی رہیں گے اور ۱۷؍ ذی الحجہ کے بعد مکہ مکرمہ میں مسلسل ۱۸؍ دن رہنے کے ارادہ سے جو قیام ہوگا تو اس درمیان یہ سارے حجاج کرام مقیم ہوجائیں گے اور نمازوں کا اتمام ان پر لازم ہوگا۔ ج:- اس سوال کا مدار مکہ مکرمہ اور جدہ کے درمیان سفر شرعی کی مسافت ماننے پر ہے؛ لیکن اب چونکہ آبادی پھیل جانے کی وجہ سے مکہ معظمہ اور جدہ شہر کے درمیان سفر شرعی کی مسافت نہیں رہی ہے؛ اس لئے اگر پہلے سے جدہ میں رات گذارنے کا ارادہ نہ ہو جیسا کہ سوال نامہ سے واضح ہے، تو محض سیر وتفریح کے لئے دن میں جدہ کا ارادہ کرنے سے اقامت پر کوئی فرق نہ پڑے گا اور وہ حجاج مکہ معظمہ میں مقیم ہی شمار ہوں گے۔