خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
ہوں گے؛ البتہ ۱۲؍ ذی الحجہ کے بعد ان کا قیام مکہ مکرمہ میں مزید ۲۳؍ دن کا ہوتا ہے؛ لہٰذا سترہ ذی الحجہ کو سفر شرعی کی نیت اس کے حج کے بعد مقیم بننے میں مانع ہوگی یانہیں؟ نیز یہ بھی وضاحت فرما دیں کہ جدہ میں رات میں سونے اور نہ سونے کی صورت میں حکم میں کوئی فرق ہوگا یا نہیں؟ ج:- اگر ان لوگوں کے جدہ جانے کی تاریخ مقرر نہ ہو درمیان میں کسی ایک دن ہو تو مسئلے میں کوئی فرق آئے گا یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ اس وقت مکہ معظمہ اور جدہ کی آبادی پھیل جانے کی وجہ سے دونوں شہروں کا فاصلہ صرف ۶۰؍ ۶۲؍ کلو میٹر رہ گیا ہے، پس مکہ معظمہ سے جدہ جانے والا شخص مسافر شمار نہیں ہوتا۔ اور آپ نے سوال میں پانی پر بنی ہوئی جس مسجد کا ذکر کیا ہے اس کے بارے میں حضرت مولانا مفتی شبیر احمد صاحب مدظلہ العالی مفتی مدرسہ شاہی مرادآباد کے مشاہدہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ مسجد جدہ شہر سے باہر نہیں ہے؛ بلکہ شہر ہی کا ایک حصہ ہے، مفتی صاحب موصوف نے اس مسجد میں کئی مرتبہ مغرب کی نماز بھی ادا کی ہے؛ لہٰذا مکہ سے اس مسجد تک جانے والے لوگ جو صبح جاکر رات تک مکہ معظمہ واپس لوٹ آتے ہیں ان کا وطن اقامت اس سفر سے باطل نہیں ہوتا؛ اس لئے آپ نے اس مسافت کو مسافت شرعی مان کر جو سوالات قائم فرمائے ہیں ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ اگر پہلے ہی سے پورے گروپ کو جدہ جاکر رات کو ہوٹل میں ٹھہرنے کا نظام ہو تو مذکورہ سوالات پیش آسکتے ہیں، ان کے متعلق جوابات درج ذیل ہیں: الف:- جو حاجی ۵؍ ذی الحجہ کو مکہ معظمہ پہنچا اور اس کا ۱۷؍ ذی الحجہ کو جدہ جاکر رات گذارنے کا پہلے سے ارادہ ہے، تو مذکورہ حاجی ۵؍ ذی الحجہ سے ۱۷؍ ذی الحجہ تک مسافر ہی رہے گا مقیم نہیں کہلائے گا اگرچہ اس کا سامان مکہ معظمہ میں ہو پھر بھی حکم میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصدًا مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا صلی الفرض الرباعي رکعتین وجوبا لقول ابن عباس: إن اللّٰہ فرض علی لسان نبیکم