خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
نیز مکہ مکرمہ کے بعض قدیم محلوں میں اتصال عمرانی بھی نہیں ہے؛ بلکہ بڑے بڑے فناء یا پہاڑ ہیں، اسی طرح سے نئی کالونیاں یا آبادیاں بھی ایک دوسرے سے کافی کٹی ہوئی ہیں؛ لیکن حدود مکہ کے اندر ہی ہیں، جیسے العوالی ایک منفصل اور منقطع مستقل نئی کالونی اور آبادی ہے۔ اس تمہید کے بعد یہ سمجھنا چاہئے کہ منی اور مزدلفہ کی شرعی حدود اپنی جگہ بالکل متعین اور ناقابل ترمیم ہیں اور جو عبادت ان میں سے جس جگہ ادا کرنے کا حکم ہے اس کے حدود میں ادا کئے بغیر اس عبادت کا ثواب نہیں مل سکتا، مثلاً منیٰ میں رات گذارنے کا جو ثواب ہے وہ حدود مزدلفہ میں رات گذارنے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح وقوفِ مزدلفہ کا حکم وقوفِ منیٰ سے پورا نہیں ہوسکتا وغیرہ، لہٰذا مناسک کی ادائیگی کے اعتبار سے مشاعر مقدسہ کی حدود میں ترمیم وتبدیلی کا موضوع یہاں زیر بحث ہی نہیں ہے؛ بلکہ موضوع بحث یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک قصر واتمام کا تعلق مناسک حج سے نہیں ہے؛ بلکہ اس کا تعلق ان عام اصولوں سے ہے، جن کو ہر جگہ کے لئے قصر واتمام کی بنیاد بنایا گیا ہے، وہ اصول جس طرح دنیا کے اور شہروں اور آبادیوں پر جاری ہوں گے۔ اسی طرح مکہ معظمہ اور اس سے ملحق جگہوں پر بھی جاری ہوں گے، مثلاً یہ کہ شہر اور اس سے ملحق فناء شہر یا حکومتی اور عرفی اعتبار سے جن جگہوں پر ایک آبادی کا اطلاق ہوتا ہو وہ سب ایک شہر کے حکم میں سمجھے جائیں گے اور وہاں پر پندرہ دن یا اس سے زائد قیام کی نیت سے ٹھہرنے والا اس وقت تک مقیم ہی کہلائے گا جب تک کہ اس شہر اور اس سے ملحق جگہ سے سفر کے ارادہ سے باہر نہ چلا جائے۔ اس اصول کی روشنی میں جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اگرچہ ماضی میں عرصۂ دراز تک مکہ معظمہ، منیٰ اور مزدلفہ بالکل الگ الگ مقامات تھے، منیٰ اور مکہ کے بڑے حصے کے درمیان بڑے بڑے پہاڑ حائل تھے۔ اسی طرح مزدلفہ کے ارد گرد کوئی آبادی نہ تھی اور عرفات تو بالکل ہی الگ تھا، لیکن گذشتہ چند سالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے مکہ معظمہ کی آبادی اس تیزی سے بڑھی کہ منی تین جانب سے آبادی کے بیچ میں آگیا، ایک جانب عزیزیہ، دوسری جانب شرائع، معیصم اور عدل، اور تیسری جانب ریع صدقی ہے، اور پہاڑوں کے درمیان بڑی بڑی وسیع