خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
کر وہی فتویٰ دیا جائے جو ماضی میں تھا، کہ اگر ایک شخص مکہ اور منیٰ دونوں کو ملا کر پندرہ دن یا اس سے زائد قیام کی نیت کرتا ہے تو وہ شرعاً مسافر ہی رہے گا اور اس پر قصر لازم ہوگا، کیوں کہ عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرون سابقہ میں ایسا ہی تھا یاصورت حال کی تبدیلی اور واقعاتی اور سرکاری دونوں سطح پر مکہ مکرمہ میں منیٰ کی شمولیت کی وجہ سے دونوں کو ایک آبادی تصور کیا جائے گا، اور اگر دونوں کو ملا کر پندرہ یوم یااس سے زائد قیام کا ارادہ ہو تو ایسے شخص کو مقیم مانا جائے گا، اور اس پر مقیم کے احکام جاری ہوںگے۔ غالباً آپ کے علم میں یہ بات ہوگی کہ اس مسئلہ میں برصغیر کے علماء میں ایک سے زائد آراء پائی جاتی ہیں، اس کی وجہ سے حج پر جانے والے حضرات خاص طور پر کشمکش کا شکار ہوتے ہیں کہ کس رائے کو اختیار کرکے اس پر عمل کریں؟ اس لئے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ دونوں آراء اور ان کے دلائل کا باریک بینی سے مطالعہ کرکے کوئی رائے قائم کی جائے، اور ترجیحی رائے کے دلائل ووجوہ بھی تفصیل سے لکھے جائیں تاکہ اکیڈمی کو فیصلہ تک پہنچنے میں سہولت ہو۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق، حامداً ومصلیاً ومسلماً: سبھی مشاعر مقدسہ (حرم، صفا ومروہ، منیٰ، مزدلفہ اور عرفات) کی حدود توقیفی ہیں، ان میں کمی بیشی کا کسی کو اختیار نہیں ہے؛ لیکن ان کی اپنی حدیں برقرار رکھ کر اگر کسی عارض کی وجہ سے کوئی دوسرا حکم ان سے متصل ہوجائے تو اس میں کوئی چیز مانع نہیں ہے، مثال کے طور پر حرم کی حدود تنعیم تک ختم ہوجاتی ہیں؛ لیکن تنعیم سے بہت آگے تک مکہ کی آبادی بڑھ چکی ہے جس کی وجہ سے وہ آبادی اگرچہ حرم میں شمار نہیں ہوتی مگر مکہ کے شہر میں داخل سمجھی جاتی ہے، اس آبادی کے بڑھنے سے حرم کے حدود میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، مگر اصول کے مطابق وہ اضافہ شدہ آبادی شہر مکہ ہی کے حکم میں ہے۔ اسی طرح مسعی (صفامروہ کے درمیان سعی کرنے کی جگہ) کو ابھی تک سعودی حکومت نے مسجد حرام کی حدود میں داخل نہیں کیا ہے؛ لیکن اگر وہاں تک جماعت کی صفیں پہنچ جائیں، تو وہاں نماز پڑھنے سے حرم کی جماعت کا ثواب یقینا حاصل ہوگا اور اس حکم کی وجہ سے مسعی کی حدود میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی۔