خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
کہ: اگر قصر کرنا تھا اتمام کیا تو کیا ہوگا اور اتمام کرنا تھاقصر کیا تو کیا ہوگا؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر ان ایام میں واقعۃً حاجی مسافر تھا مگر اس نے اتمام کرلیا تو اگر دوسری رکعت پر قعدہ کیا ہے تو فرض ادا ہو جائیگا، تا ہم چونکہ وقت پر سلام نہیں پھیرا ہے اس لیے تاخیر واجب کی وجہ سے بہتر ہے کہ اعادہ کرلے، اور وقت کے اندر اندر اعادہ زیادہ مؤکد ہے اور وقت نکلنے کے بعد اتنی تاکید نہیں، اور ان ایام میں مقیم تھا اور اتمام کا حکم معلوم ہونے کے باوجود نمازیں قصر پڑھیں، تو بعد میں وہ نمازیں دہرانی لازم ہوںگی اور اگر اتمام کا حکم معلوم نہیں تھا، یا کسی ایسے مفتی کی رائے پر عمل کیا جو اتمام کا قائل نہیں تو ایسی صورت میں اعادہ کا حکم نہیں ہے۔(نظام الفتاویٰ ۶؍۱۶۴) فلو أتم وقعد فی الثانیۃ صح و إلا لا، أی و إن لم یقعد علی رأس الرکعتین لم یصح فرضہ؛ لأنہ إذا قعد فقد تم فرضہ وصارت الأخریان لہ نفلا کالفجر وصار آثما لتاخیر السلام و إن لم یقصد فقد خلط النفل بالفرض قبل إکمالہ۔ (البحر الرائق ۲؍۱۳۰ کوئٹہ) روی عن أبي حنیفۃ أنہ قال: من أتم الصلاۃ فقد أساء وخالف السنۃ۔ (شامي / باب صلاۃ المسافر ۲؍۶۰۳ زکریا) فلو أتم مسافر إن قعد في القعدۃ الأولیٰ تم فرضہ ولکنہ أساء، لو عامدا لتاخیر السلا م، وترک واجب القصر، وواجب تکبیرۃ افتتاح لنقل، وخلط النفل بالفرض و ہذا لا یحل۔ (در مختار ۲؍۶۰۹-۶۱۰ زکریا) فإذا تم الرباعیۃ و الحال أنہ قعد القعود الأول قدر التشہد، صحت صلاتہ مع الکراہۃ، لتاخیر الواجب، وہو السلام عن محلہ، إن کان عامدًا، فإذا کان ساہیا لیسجد للسہو۔ (مراقي الفلاح / باب صلاۃ المسافر ۴۲۵ قدیمی، کذا في تبیین