خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
(۲) کیا خود امام ابو حنیفہؒ کے ایک غیر مفتی بہ قول پر فتویٰ دے کر ۱۱؍ ۱۲؍ ذی الحجہ کی رمی کے وقت کو طلوع فجر سے شروع مانا جاسکتا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:ذی الحجہ کی دسویں تاریخ میں رمی کے ابتدا کی وقت کے متعلق حضرت امام شافعی وغیرہم کے دلائل کو بحث میں نہ لاتے ہوئے اصولی طور پر عرض ہے کہ دوسرے امام کے مسلک پر عمل کرنے کے لئے واقعی ضرورت کا پایا جانا شرط ہے، اور چونکہ حنفیہ اور جمہور علماء کے مسلک میں دس تاریخ کو رمی کاوقت مکمل چوبیس گھنٹہ (دسویں کی صبح صادق سے گیارہویں کی صبح صادق تک) ہے، اور اس میں بھیڑ وغیرہ کے عذر سے وقت مکروہ میں رمی کرنے میں بھی حرج نہیں، نیز سالوں کا مشاہدہ یہ ہے کہ شام تک بھیڑ کافی حدتک چھٹ جاتی ہے، اور رات میں تو میدان بالکل خالی نظر آتا ہے، اس لئے اس مسئلہ میں عدول عن المذہب کی نہ ضرورت ہے اور نہ اجازت ہے، علاوہ ازیں حنفیہ کے نزدیک وقوف مزدلفہ کا واجب وقت دسویں تاریخ کو صبح صادق اور طلوع آفتاب کے درمیان ہے، اب اگر آج کے دن صبح صادق سے قبل رمی کی اجازت دی جائے گی، تو لازما وقوف مزدلفہ کا واجب ترک ہوجائے گا، حالانکہ اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا مسئلہ میں تبدیلی کے بجائے حجاج کو صحیح تربیت دینے، انہیں شریعت میں پہلے سے موجود وقت کی وسعت سے آگاہ کرنے، اور ذمہ دار رفقاء سفر کے ذریعہ ان پر عمل در آمد کرانے کی ضرورت ہے، بالخصوص حجاج کو جلد بازی سے بچنے کی تلقین کی جائے، اس کے بغیر سوال نامہ کی تمہید میں آپ نے جو حجاج کے جانی تحفظ کا مطالبہ پیش کیا ہے، وہ پورا نہ ہوسکے گا۔ قال في الغنیۃ: أما الرمي في الیوم الأول - فلأدائہ وقت الجواز من الفجر إلی الفجر ووقت مسنون من طلوع الشمس إلی الزوال، ووقت مباح من الزوال إلی الغروب، ووقت مکروہ قبل طلوع الشمس وبعد الغروب، وإن کان بعد لاکراہۃ فیہما۔ (غنیۃ الناسک / باب رمي الجمار ۱۸۱ إدارۃ القرآن کراچی) ۱۱؍ ۱۲؍ ذی الحجہ کو زوال سے قبل رمی کے جواز کے متعلق حضرت امام ابو حنیفہؒ کا قول انتہائی