خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
کریں، تو یہ حضرات ان احادیث کے سلسلے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ افضل پر عمل کا حکم تھا، اور افضل بہر حال بعد میں ہی رمی کرنا ہے۔ یہاں تک جو عرض کیا گیا وہ ۱۰؍ ذی الحجہ کی رمی کے سلسلے میں تھا، اس کے بعد ۱۱، ۱۲؍ ذی الحجہ کے سلسلہ میں امام ابو حنیفہؒ کا مشہور اور احناف کا مفتی بہ قول یہ ہے کہ ان دونوں دنوں میں رمی کا وقت زوال سے شروع ہوتا ہے، اور اگلے دن کی صبح صادق سے پہلے تک رہتا ہے، اور دیگر تمام مسالک میں بھی ان دونوں دنوں میں رمی کا وقت زوال سے ہی شروع ہوتا ہے، اس صورت میں ۱۱؍ذی الحجہ کو تو زیادہ پریشانی نہیں پیش آتی کہ اس دن سوائے رمی کے کوئی اور رکن ادا نہیں کرنا ہوتا؛ لیکن ۱۲؍ ذی الحجہ کو چوں کہ تقریباً تمام حاجی غروب سے پہلے منی کی حدود سے باہر نکلنا چاہتے ہیں اس لئے اس دن وقت کی قلت مسئلہ بنتی ہے، جس کے نتیجہ میں زبردست اژدحام ہوجاتا ہے، اور پھر یہ اژدحام نہایت تکلیف دہ حادثات کا بھی سبب بنتا ہے۔ خیال رہے کہ اس طرح کے حادثات عام طور پر ۱۲؍ ذی الحجہ کو ہی ہوتے ہیں۔ علماء احناف کے لئے یہ امر قابل توجہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں امام ابو حنیفہؒ کے ایک غیر مشہور اور غیر مفتی بہ قول پر فتوی دیا جاسکتا ہے؟ جس کے مطابق ان دونوں دنوں میں رمی کا وقت طلوع فجر سے شروع ہوجاتا ہے، ہمارے اہل علم واقف ہیں کہ ’’ضرورت وحاجت‘‘ کے وقت ماضی میں فقہاء حنفیہ نے متعدد مسائل میں قول مرجوح وغیر مفتی بہ پر فتوی دیا ہے، اور جیسا کہ پیچھے کئی بار گذرا یہاں ’’ضرورت‘‘ سیکڑوں ہزاروں مسلمانوں کی جانوں کی حفاظت ہے، جب کہ جن مسائل میں غیر مفتی بہ قول کو اختیار کرلیا گیا ہے، اہل علم واقف ہیں کہ ان میں سے اکثر مسائل میں ’’ضرورت‘‘ اس سے کم درجہ کی ہے۔ اب تک جو کچھ لکھا گیا اس کی روشنی میں دو سوال سامنے آتے ہیں: (۱) کیا ۱۰؍ ذی الحجہ کی رمی کے سلسلہ میں شوافع اور حنابلہ کے مسلک پر عمل کرتے ہوئے اس دن کی رمی کا آغاز نصف لیل سے ہونے پر فتوی دیا جاسکتا ہے؟