خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
ضعیف اور غیر مفتی بہ ہے، حتی کہ بعض علماء نے امام صاحبؒ کی طرف اس کی نسبت کو بھی غلط فہمی قرار دیا ہے، با یں ہمہ کسی بھی ضعیف قول پر عمل اور فتوی کے لئے شرعی ضرورت کا متحقق ہونا ضروری ہے، اور یہاں کوئی شرعی ضرورت متحقق نہیں ہے، اس لئے کہ زوال کے بعد سے اگلے دن کی صبح صادق تک اچھا خاصا لمبا وقت ملتا ہے، اور عوام بلکہ بعض خواص میں جو یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ ۱۲ تاریخ کو غروب سے قبل منی سے نکلنا لازم ہے، ورنہ اگلے دن کی رمی واجب ہوجائے گی، یہ مفروضہ حنفی مسلک کی رو سے قطعاً غلط ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ۱۲؍ تاریخ کی رمی کا وقت تیرہویں کی صبح صادق تک باقی رہتا ہے، اور عذر کی وجہ سے اس رات میں رمی بلاکراہت درست ہے، اس لئے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے، ہمارا بار بار کا مشاہدہ ہے کہ ۱۲؍ تاریخ کو غروب کے بعد جمرات میں بھیڑ بالکل چھٹ جاتی ہے، اور اس وقت ضعفاء اور خواتین بھی بآسانی قریب سے جاکر رمی کرلیتے ہیں، اس لئے ایک ضعیف ترین قول کو بنیاد بنا کر رمی کے وقت کو تبدیل کرنے کے بجائے پہلے ہی سے جو رخصت شریعت میں موجود ہے اسی پر عمل کی ترغیب دینی چاہئے۔ وأما وقت الجواز في الیوم الثاني والثالث من أیام النحر، فمن الزوال إلی طلوع الفجر من الغد، فلایجوز قبل الزوال في ظاہر الروایۃ، وعلیہ الجمہور من أصحاب المتون والشروح والفتاوی، قال في الفیض: وہو الصواب اہـ ۔ وروی الحسن عن أبي حنیفۃؒ أنہ لو أراد أن ینفر في الیوم الثالث من أیام النحر لہ أن یرمی قبل الزوال، وإن رمی بعدہ فہو أفضل، وإنما لایجوز قبل الزوال ممن لایرید النفر اہـ۔ وہو خلاف ظاہر الروایۃ، وخلاف النص من فعلہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وفعل الصحابۃ بعدہ، قال في البدائع: وہٰذا باب لا یعرف بالقیاس؛ بل بالتوقیف اہـ۔ وقال في الفتح: لا یجوز فیہما قبل الزوال اتفاقاً لوجوب اتباع المنقول لعدم المعقولیۃ، اہـ۔ (غنیۃ الناسک / باب رمي الجمار ۱۸۱ إدارۃ القرآن کراچی) ولہ النفر من منی قبل طلوع فجر الرابع۔ (درمختار مع الشامی ۳؍۵۴۳، بدائع