خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
مسئلہ مفقود عنہا زوجہا ممتدۃ الطہر کی عدت اور تعلیم قرآن ومسائل کی اجرت جیسے کتنے ہیں کہ اس میں ہمارے متقدمین کی آراء کچھ اور تھیں، لیکن تغیر زمانہ کے نتیجے میں وجود میں آئی ’’شرعی ضرورت‘‘ نے متاخرین کو مجبور کیا کہ وہ کسی اور مسلک پر فتوی دیں۔ اور ذکر کئے گئے تینوں مسائل میں جن شرعی ضرورتوں نے اپنے مسلک سے عدول پر فقہائے احناف کو مجبور کیا تھا، اگر غور کیا جائے تو وہ زیر نظر مسئلہ میں موجود ’’ضرورت‘‘ سے کہیں کم تر تھیں، ان میں سے کسی بھی مسئلہ میں ایک فرد واحد کی بھی جان تلف نہیں ہورہی تھی، اور یہاں مسئلہ ہرسال سیکڑوں ہزاروں حاجیوں کو متوقع خطرات سے بچانے کا ہے۔ پھر شوافع اور حنابلہ کا یہ مسلک ایسا بے دلیل بھی نہیں کہ اس کی طرف عدول اس وجہ سے مشکل ہو کہ اس رائے کے پیچھے مضبوط دلائل نہیں۔ ان حضرات کے مستدلات میں سے صرف ایک دلیل کو یہاں ہم ذکر کررہے ہیں، جس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ رائے اپنے لئے قابل لحاظ دلائل کی بنیاد پر رکھتی ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں حضرت اسماء بنت ابی بکر کے مولی حضرت عبد اﷲ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت اسماء ۱۰؍ ذی الحجہ کی شب کو چاند کے غائب ہوجانے کے بعد مزدلفہ سے منی کی طرف چلیں، اور وہاں پہنچ کر رمی کی او ررمی کے بعد اپنی قیام گاہ واپس آکر نماز فجر ادا کی، حضرت عبد اﷲ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ’’ما أرانا إلا قد غلسنا‘‘ جس کے جواب میں حضرت اسماء نے فرمایا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے عورتوں کے لئے اس کی اجازت دی تھی۔ شوافع اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ ’’قدغلسنا‘‘ سے مراد طلوع فجر سے پہلے رمی کرنا ہے، ان کے اس قول کی تائید ابوداؤد کی روایت میں اسی موقع کے یہ الفاظ کرتے ہیں ’’إنا رمینا الجمرۃ بلیل‘‘۔ یہ تو حضرت اسماء کا ذکر ہے، ابوداؤد نے اسی مقام پر ایک اور حدیث ذکر کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام سلمہ نے بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی اجازت سے ۱۰؍ ویں ذی الحجہ کو طلوع فجر سے پہلے رمی کی تھی۔ اب رہیں وہ احادیث جن میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’ضعفۃ أہلہ‘‘ کو یہ نصیحت کی تھی کہ وہ طلوع فجر سے پہلے رمی نہ