خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
۱۰؍ ذی الحجہ کو پہلی رمی ہوتی ہے، اور احناف کے نزدیک اس کا وقت صبح صادق سے شروع ہوکر اگلے دن کی صبح صادق تک رہتا ہے، جب کہ اس کا مستحب وقت ان کے نزدیک طلوع آفتاب سے زوال تک رہتا ہے۔ چوں کہ ۱۰؍ ذی الحجہ حاجی کے لئے سب سے زیادہ مشغول دن ہوتا ہے اور اس دن اس کو کئی مناسک ادا کرنے ہوتے ہیں، رمی کرنی ہوتی ہے، قربانی کرنی ہوتی ہے، حلق (یاتقصیر) کروانا ہوتا ہے، طواف زیارت بھی اسی دن ہوتا ہے، اور پھر منیٰ واپسی کرنی ہوتی، اور احناف کے نزدیک ان سب کا آغاز حاجی کو رمی سے ہی کرنا ہے، اس لئے حاجی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ رمی جلد از جلد کرے؛ تاکہ وہ پھر دیگر مناسک ادا کرکے منیٰ جلد واپس آسکے۔ ایسی صورت میں صبح کے وقت جمرۃ العقبہ کی رمی سے تمام لوگ جلد فارغ ہونا چاہتے ہیں، نتیجۃً وہاں زبردست اژدحام ہوتا ہے، اور کسی طرح کے حادثات کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ دیگر مسالک میں سے حنابلہ اور شوافع کے یہاں ۱۰؍ ذی الحجہ کو رمی کا وقت نصف رات سے شروع ہوجاتا ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں حجاج کے وقت میں گنجائش نکل آتی ہے، اور اس پر عمل کرنے والوں کے لئے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ کثرت اژدحام کے وقت کی آزمائش سے بچ جائیں، اور اس دن کے دیگر مناسک بھی کسی قدر آرام سے ادا کرلیں، اس طرح وہ ان متوقع حادثات سے بچ سکتے ہیں، جن کا خطرہ بھیڑ کی زیادتی کی وجہ سے صبح کے وقت بڑھ جاتا ہے، اور خوف رہتا ہے کہ کہیں حجاج کی ایک بڑی تعداد اس طرح کے کسی حادثہ کی زد میں نہ آجائے۔ علماء احناف بالخصوص ان کے اصحاب فتوی کے لئے یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے مسلک پر عمل کرکے سیکڑوں ہزاروں مسلمانوں کی جانوں کو متوقع حادثات سے بچایا جاسکتا ہے، فقہائے احناف نے ماضی میں اس سے بہت کم درجہ کی ’’ضرورت‘‘ میں مسلک غیر پر فتوی دیاہے۔ یہاں مسئلہ مسلمانوں کی جان کا ہے، جس کے لئے شریعت نے ’’ضرورت‘‘ کے وقت میتہ اور خنزیر جیسے محرمات کے استعمال کی اجازت دی ہے۔