خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
ہے، بلا شبہ تمام عازمین حج اعلی درجہ کے سمجھ دار، دانا اور تربیت یافتہ ہوتے ہیں، نہ ہوسکتے ہیں، لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ انہیں حجاج کے ہاتھوں دوران حج کسی اور مقام پر بالعموم ایسے حادثے رونما نہیں ہوتے۔ اگر ان تمام حادثات میں دوش صرف حجاج کا ہے تو حج کے دیگر ارکان کی ادائیگی کے وقت ایسی صورتِ حال کیوں نہیں پیدا ہوتی؟ کیا وہ حجاج جو منی میں رمی جمرات کے وقت غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں، دیگر مناسک کی ادائے گی کے وقت اعلی درجہ کے تربیت یافتہ ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے تو پھر رمی جمرات کے وقت ایسے حادثے کیوں رونما ہوتے ہیں؟ در اصل رمی جمرات کا وقت اور مقام نہایت تنگ ہوتا ہے۔ آپ خود غور فرمائیں کہ پچیس لاکھ سے زائد حجاجِ کرام کو رمی کرنی ہو، رمی کرنے کا مقام بھی متعین ہو اور وقت بھی نہایت محدود، ایسی صورت حال میں اس اژدحام کا کیا عالم ہوتا ہوگا، اور اس اژدحام میں اگر کوئی حادثہ ہوجائے تو کیا اس کو کنٹرول کرنا آسان بلکہ ممکن ہوگا؟ اب ظاہر ہے کہ نہ یہ ممکن ہے کہ اس اژدحام اور اس کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے حادثات سے بچنے کے لئے عازمین حج کی تعداد کم کی جائے کہ وہ پہلے ہی سے مسلمانوں کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے نہایت کم ہے، اور نہ یہ ممکن ہے کہ رمی جمرات کے مقام کو اتنی وسعت دے دی جائے کہ اژدحام سے بچایا جاسکے۔ لہٰذا بس وقت کی توسیع وہ چیز ہے جو اس طرح کے حادثات سے بچانے میں ہماری کچھ مدد کرسکتی ہے، ضرورت ہے کہ علماء (علماء احناف) اس پر غور فرمائیں، اور اگر شرعی دلائل کی روشنی میں رمی کے وقت میں توسیع کرکے ان تلف ہونے والی جانوں کو بچانا ممکن ہو تو اپنے فتاوی کے ذریعہ ان کو بچائیں، اس طرح کے حادثات کی زد میں آنے والوں کی تعداد بھی توسیکڑوں تک ہوتی ہے، ڈر ہے کہ کہیں ان کی تعداد بڑھ کر کبھی ہزاروں کی حدود نہ تجاوز کرجائے۔ قبل اس کے کہ (خدانخواستہ ) ایسا ہو ہمارے اصحاب علم وفتوی کو اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ یہ مسئلہ ان کی توجہ کا مستحق اور منتظر ہے۔ زیر نظر تحریر کا مقصد بھی اس اہم مسئلہ پر محترم علماء کی خدمت میں چند گذارشات کا پیش کرنا ہے۔