خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
اور آپ کے اصحاب نے بھی۔ اور اپنے بدنہ یعنی قربانی کے جانور کے گلے میں پٹہ ڈالا۔ حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مدینہ سے چلنا حج کی نیت سے تھا، تو معلوم ہوا کہ نیت ہوگئی اور تلبیہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعد میں پڑھا۔ ان تمام عبارتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تو ضروری ہے کہ نیت اور تلبیہ دونوں ہوں؛ لیکن دونوں کا ایک ساتھ ہونا ضروری نہیں۔ اگر ایک ساتھ ہونے کی شرط ہوتی تو ضرور فقہ کی کتابوں میں اس کا بطور شرط ذکر ہوتا۔ معلم الحجاج میں ص: ۱۰۱؍ میں ہے کہ نیت اور تلبیہ کا ایک ساتھ ہونا شرط ہے، مگر ص: ۱۰۰؍ پر لکھا ہے کہ احرام کے لئے نیت اور تلبیہ دونوں کا ہونا ضروری ہے۔ یہاں ساتھ کی شرط کا ذکر نہیں ہے، بہرحال احادیث وفقہی کتب کے مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نیت اور تلبیہ دونوں کا ایک ساتھ ہونا بہتر ہے شرط نہیں ہے۔،، حضرت مفتی صاحب سے گذارش ہے کہ مذکور ہ با لاعبارتوں کو سامنے رکھ کر جواب سے نوازیں کہ نیت اور تلبیہ کا ایک ساتھ ہونا ضروری اور شرط ہے یا صرف بہتر ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک احرام کا آغاز تلبیہ پڑھنے کے بعد ہوتا ہے، بشرطیکہ اس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو؛ البتہ نیت اور تلبیہ کا ایک ساتھ ہونا ضروری نہیں؛ کیوں کہ خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر پہلی دفعہ کب تلبیہ پڑھا؟ اس میں اختلاف ہے، یہاں تک کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ سے احرام کا لباس پہن کر چلے اور ذوالحلیفہ پہنچ کرتلبیہ پڑھا۔ عن عبد اللّٰہ بن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: إنطلق النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من المدینۃ بعد ما ترجل وادہن ولبس إزارہ ورداء ہ ہو وأصحابہ، فلم ینہ عن شيء من الأردیۃ والأزر تلبس إلا المزعفرۃ التي تردع علی الجلد، فأصبح بذی الحلیفۃ، رکب راحلتہ، حتی استوی علی البیداء أہلّ ہو وأصحابہ، وقلد بدنتہ۔