خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
(صحیح البخاري، ما یلبس المحرم من الثیاب والأردیۃ والأزر، حدیث: ۱۵۴۵، فتح الباري ۳؍۵۱۶) اور یہ ظاہر ہے کہ آپ کا مدینہ سے چلنا حج کی نیت سے تھا، تو معلوم ہوا کہ نیت پہلے ہوگئی اور تلبیہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعد میں پڑھا؛ اس لئے صحیح یہی ہے کہ تلبیہ اور نیت کا اتصال ضروری نہیں۔ آنجناب نے جو مسئلہ سوال نامہ میں اٹھایا وہ محض تعبیر کا فرق ہے، اصل بات یہ ہے کہ نیت کے ساتھ فوراً تلبیہ شرط نہیں ہے؛ لیکن تلبیہ کے ساتھ نیت احرام شرط ہے، خواہ وہ نیت متصلاً ہو یا پیشگی ہو نیت کے بغیر محض تلبیہ سے احرام نہیں شروع ہوسکتا، اور جن حضرات نے احرام میں نیت اور تلبیہ دونوں شرط کہا ہے انہوں نے اسی … پہلو کو پیش نظر رکھا، اور جن لوگوں نے دونوں کی شرطیت سے انکار کیا ہے انہوں نے صرف نیت کے پہلو کو پیش نظر رکھا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے تکبیر تحریمہ کہ نماز میں تکبیر کہتے وقت نیت حقیقی یا حکمی ضروری ہے، حقیقی یہ کہ تکبیر کے وقت صراحۃً نماز کی نیت ہو، اور حکمی یہ کہ گھر سے نماز کی نیت سے چلا اور مسجد میں جاتے ہی تکبیر تحریمہ کہہ دی، تو گھر سے چلتے وقت کی نیت حکمی بھی معتبر ہوگی، جیسا کہ فقہاء نے صراحت کی، بعینہ یہی حال حج میں نیت اور تلبیہ کا ہے، اس سلسلہ میں صاحب غنیۃ الناسک کی یہ عبارت ملاحظہ ہو: فلو نوی ولم یلب أو لبی ولم ینو لایصیر محرماً وہل یصیر محرما بالنیۃ والتلبیۃ، أو بأحدہما بشرط الآخر؟ المعتمد ما ذکرہ الحاکم الشہید رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ بالنیۃ لکن عند التلبیۃ لا بالتلبیۃ، کما یصیر شارعاً في الصلاۃ بالنیۃ، لکن بشرط التکبیر لا بالتکبیر۔ (غنیۃ الناسک جدید ۶۵) قال إبراہیم: تجزئہ النیۃ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۸؍۷۶۹ رقم: ۱۶۰۱۵) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۸؍۸؍۱۴۳۰ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ