خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
یہاں عمرہ کی نیت اور تلبیہ کے لئے کہا جارہا ہے کہ نماز کے بعد تلبیہ پڑھ لو یہ بہتر ہے، اور اس کی بھی اجازت دی جارہی ہے کہ نماز وغیرہ سے فارغ ہوکر جب سواری کو پوری طرح تیار کرلو، اس وقت تلبیہ پڑھ لو یا اس پر سوار ہوکر تلبیہ پڑھ لو، یہاں تک کہ آگے جاکر میقات پر پہنچنے کے بعد تلبیہ پڑھ لو۔ فتاویٰ عالمگیری (الباب الثالث فی الاحرام) میں اس طرح درج ہے: وأما شرط النیۃ حتی لا یصیر محرمًا بالتلبیۃ بدون نیۃ الإحرام، کذا في محیط السرخسي، ولا یصیر شارعاً بمجرد النیۃ ما لم یات بالتلبیۃ، أو ما یقوم مقامہا من الذکر، أو سوق الہدي، أو تقلید البدنۃ۔ بہر حال (احرام کی) نیت کی شرط تو وہ احرام کی نیت کے بغیر صرف تلبیہ سے محرم نہیں ہوگا، اور ایسے ہی صرف نیت ہی سے احرام شروع نہیں ہوگا جب تک کہ تلبیہ نہ پڑھ لے، یا اس کے قائم مقام کوئی کام نہ کرلے، جیسے ذکر یاہدی کو ہانکنا یا بدنہ کے گلے میں پٹہ ڈالنا۔ بخاری شریف (کتاب الحج، باب ما یلبس المحرم من الثیاب والأردیۃ والأزر، حدیث: ۱۴۷۰) کے الفاظ ہیں: عن عبد اللّٰہ بن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: انطلق النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من المدینۃ بعد ما ترجل وادہن ولبس إزارہ ورداء ہ ہو وأصحابہ، فلم ینہ عن شيء من الأردیۃ والأزر تلبس إلا المزعفرۃ التي تردع علی الجلد، فأصبح بذی الحلیفۃ، رکب راحلتہ، حتی استوی علی البیداء أہلّ ہو وأصحابہ، وقلد بدنتہ۔ عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب مدینہ سے چلے تیل لگاکر کنگھی کرکے اور تہبند اور چادر اوڑھ کر، اور آپ نے منع نہیں فرمایا چادر اور ازار میں سے کسی چیز کے پہننے سے، سوائے اس زعفرانی کپڑے کے جس کا رنگ جلد تک پہونچ جاتا ہے، اور آپ ذوالحلیفہ پہنچے، سواری پر سوار ہوئے اور بیداء پر کھڑے ہوئے اور تلبیہ پڑھی، آپ نے بھی