خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
روانہ فرمائی ہیں: ’’ نیت اور تلبیہ ایک ساتھ ہونا شرط ہے یانہیں، اس بارے میں حسبِ ذیل فقہی عبارات ملاحظہ فرمائیں: ہدایہ اولین، کتاب الحج باب الاحرام میں ہے: ثم یلبي عقیب صلا تہ لما روي أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لبی في دبر صلا تہ، وإن لبی بعد ما استوت بہ راحلتہ جاز، ولکن الأول أفضل لما روینا۔ پھر نماز کے بعد تلبیہ پڑھے، اس روایت کی بنا بر کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز کے بعد تلبیہ پڑھی، اور اگر پڑھے سواری کی پوری طرح تیار کے بعد تو یہ بھی جائز ہے؛ لیکن پہلی بات افضل ہے۔ تحفۃ الفقہاء (۱؍۴۰۱) کی عبارت اس طرح ہے: ثم یصلي رکعتین ثم ینوي العمرۃ ویلبي في دبر صلا تہ بذلک أو بعد ما تستوي بہ راحلتہ علی الوجہ الذي ذکرنا ویرفع صوتہ بالتلبیۃ۔ پھر دو رکعتیں پڑھے، پھر عمرہ کی نیت کرے اور تلبیہ پڑھے اپنی نماز کے بعد، یا اپنی سواری کے پوری طرح تیار ہوجانے کے بعد، اس وجہ سے کہ جس کا ذکر ہم نے کیا اور اپنی آواز کو تلبیہ کے لئے بلند کرے۔ الموسوعۃ الفقہیہ (ج: ۲؍ص: ۱۳۳) کی عبارت حسب ذیل ہے: الأفضل عند الحنفیۃ والحنابلۃ أن یلبي بنیۃ الحج أو العمرۃ، أو نیتہما معًا عقب صلا تہ رکعتین سنۃ الإحرام، وبعد نیۃ النسک وإن لبی بعد ما استوت بہ راحلتہ أو رکوبتہ جاز إلی أن یبلغ نہایۃ المیقات۔ حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک افضل یہ ہے کہ تلبیہ پڑھے جح یا عمرہ کی نیت کے ساتھ یا دونوں کی نیت کے ساتھ دو رکعت سنت احرام کے بعد اور نسک (یعنی ہدی) کی نیت کے بعد۔ اور اگر تلبیہ پڑھے سواری کی پوری طرح تیاری کے بعد یا اس پر سوار ہونے کے بعد تو بھی جائز ہے، یہاں تک کہ میقات کی حد تک پہنچ جائے۔ (یعنی میقات پہونچنے تک تلبیہ پڑھ سکتا ہے)