خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
کر اُن اِشکالات کو دور فرمادیں۔ مسئلہ(۱):- (حج یا عمرہ کی) نیت کا تلبیہ کے ساتھ ہونا شرط ہے۔ (بحوالہ: معلم الحجاج ۱۰۱) مسئلہ(۲):- احرام کی حقیقت یہ ہے کہ حج یا عمرہ کی نیت سے تلبیہ پڑھ لیا جائے؛ لہٰذا احرام کے لئے نہ صرف نیت کافی ہے اور نہ ہی صرف تلبیہ؛ بلکہ جس طرح نماز میں داخل ہونے کے لئے تکبیر تحریمہ اور نیت دونوں کا ایک ساتھ ہونا شرط ہے، اسی طرح حج یا عمرہ میں داخل ہونے کے لئے تلبیہ اور نیت دونوں کا ایک ساتھ ہونا شرط ہے۔ (مستفاد: شامی ۲؍۴۶۷ کراچی، ایضاح المناسک ۶۸) مسئلہ(۳):- احرام کی حقیقت یہ ہے کہ حج یا عمرہ یا دونوں کی نیت سے تلبیہ پڑھ لیا جائے، اور احرام کے لئے نہ صرف نیت کرنا کافی ہے اور نہ ہی صرف تلبیہ؛ بلکہ جس طرح نماز میں داخل ہونے کے لئے دل سے نیت کے ساتھ ساتھ تکبیر تحریمہ کا زبان سے ادا ہونا لازم اور شرط ہے، اسی طرح حج یا عمرہ کے احرام میں داخل ہونے کے لئے نیت اور تلبیہ دونوں کا ایک ساتھ ہونا بھی لازم ہے؛ لہٰذا اگر دل میں نیت کرلی ہے اور تلبیہ یا اس کے قائم مقام کوئی ذکر اﷲ زبان سے نہیں پڑھا، تو احرام میں داخل نہیں ہوگا، اور اسی طرح اگر زبان سے تلبیہ یا اس کے قائم مقام ذکر کے الفاظ زبان سے پڑھ لئے ہیں، مگر دل میں نیت نہیں ہے تو بھی احرام میں داخل نہ ہوگا۔ الإحرام ہو النیۃ والتلبیۃ أو ما یقوم مقامہا، أي مقام التلبیۃ من الذکر أو تقلید البدنۃ مع السوق۔ (شامي ۲؍۴۶۷ کراچی) ومن شاء الإحرام وہو شرط صحۃ النسک کتکبیرۃ الافتتاح، فالصلاۃ والحج لہما تحریم وتحلیل۔ وقولہ في الشامیۃ: والمراد بالذکر التلبیۃ ونحوہا وبالخصوصیۃ ما یقوم مقامہا من سوق الہدي، أو تقلید البدن فلا بد من التلبیۃ أو ما یقوم مقامہا فلو نوی ولم یلب أو بالعکس لا یصیر محرماً۔ (شامي ۲؍۴۷۹ کراچی) مندرجہ بالا روایتوں کی روشنی میں نیت اور تلبیہ کا ایک ساتھ ہونا شرط ہے، یہ تحریر ایک صاحب کی خدمت میں روانہ کی تھی، انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے حسبِ ذیل روایتیں