خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
کرکے احرام کھول دیں، اور مدینہ سے واپسی کے بعد ذوالحلیفہ کی میقات سے حج قران کی نیت کرکے احرام باندھیں تو حج قران ہوگا یانہیں؟ فی الحال ہم یہ کرتے ہیں کہ ذوالحلیفہ سے عمرہ کی نیت کرکے مکہ آتے ہیں، عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دیتے ہیں، اور ۷؍ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر منی کے لئے روانہ ہوجاتے ہیں، ازراہ لطف وعنایت مذکورہ بالا سوالات کے قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل جوابات عنایت فرمائیں۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جو آفاقی شخص اشہر حج میں عمرہ کرنے کے بعد مدینہ منورہ چلاگیا اس کو وہاں سے لوٹتے وقت قران کا احرام باندھنا امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جائز نہیں ہے، اور اگر اس نے ذوالحلیفہ سے قران کا احرام باندھ ہی لیا تو اس پر لازم ہے کہ عمرہ کا احرام فسخ کرکے دم جنایت ادا کرے، اگر عمرہ کا احرام فسخ نہیں کیا اور آکر دوبارہ عمرہ کرلیا تو بھی دم جنایت واجب ہوگا، اور بہر صورت وہ قارن نہیں ہوگا؛ بلکہ متمتع ہی کہلائے گا، اور تمتع کا دم شکر اس پر واجب رہے گا، اس مسئلہ میں گو کہ صاحبین کا اختلاف ہے؛ لیکن فتوی امام صاحب کے قول پر ہے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ مسئولہ صورت میں مدینہ سے واپسی کے وقت عمرہ کا احرام باندھ کر آئے، جیسا کہ آپ نے اپنا معمول لکھا ہے، اس صورت میں امام صاحب اور صاحبینؒ کے نزدیک بالاتفاق تمتع درست رہتا ہے، اور کوئی دم جنایت واجب نہیں۔ وکذا لو خرج إلی الآفاق لحاجۃ، فقرن لایکون قارنا عند أبي حنیفۃ رحمہ اﷲ، وعلیہ رفض أحدہما، ولا یبطل تمتعۃ؛ لأن الأصل عندہ أن الخروج في أشہر الحج إلی غیر أہلہ فالإقامۃ بمکۃ فکأنہ لم یخرج ، وقرن من مکۃ الخ۔ (غنیۃ قدیم؍ ۱۱۵، مستفاد: انوار مناسک؍ ۳۰۹، زبدۃ المناسک؍ ۳۰۹) ولو عاد بعد ما حلّ من عمرتہ إلی غیر أہلہ في موضع لأہلہ التمتع والقران وحج من عامہ ذٰلک کان متمتعاً عند أبي حنیفۃ وصار کأنہ لم یخرج