خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
مشغول ہوگا تو وقوفِ عرفہ چھوٹ جائے گا، مثلاً عین ۹ ؍ذی الحجہ کو پہنچا، تو اس پر لازم ہے کہ عمرہ کا احرام فسخ کردے، اور حج کا احرام باندھ لے، بعد میں ایک دم دے اور عمرہ کی قضا کرلے۔ أن المتمتع ہو الذي اعتمر في أشہر الحج وحج من عامہ ذٰلک في سفر واحد ولا یلم بأہلہ فیما بینہما إلماماً صحیحًا۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۶۲۱ رقم: ۵۱۹۱ زکریا) ویتحلل منہا أي من العمرۃ إن شاء بالحلق، أو بالتقصیر۔ (مجمع الأنہر، کتاب الحج / باب القران والتمتع ۱؍۲۸۹ دار إحیاء التراث العربي) ولم یأخذ أبو حنیفۃ أیضا بذلک؛ لأنہا کانت عندہ رافضۃ لعمرتہا، والرافضۃ عندہ علیہا دم للرفض وعلیہا عمرۃ۔ (عمدۃ القاري ۱۰؍۱۲۳ بیروت، ۱۰؍۴۲۲ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۲؍۵؍۱۴۲۹ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ