خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
اگر وکالت نامہ کافی ہوتو کیا صرف رقم زکوٰۃ پر قبضہ کرنے کی حد تک؟ یا طلبہ کی ضروریات ومصالح میں اپنے اختیار سے خرچ کرنے کا بھی مہتمم صاحب کو اختیار ہوگا؟ اور اگر وکالت نامہ میں حسب صواب دید مہتمم صاحب کو طلبہ کی جانب سے صرف کرنے کا بھی اختیار دے دیا جائے تو مندرجہ ذیل صورتیں تحقیق طلب ہیں: الف:- کیا صرف وظیفہ نقد، طعام، تنخواہ معلمین وخدام، روشنی اور پانی کے مصارف وغیرہ استہلاء کی مصارف میں مہتمم صاحب خرچ کرنے کے مجاز ہوںگے؟ ب:- یا دارالاقامہ، درس گاہوں، کتب خانوں، دفاتر اور مطبخ وغیرہ کی تعمیر نیز کتب خانہ کے لئے کتابوں کی فراہمی میں بھی صرف کرسکتے ہیں، جو غیر استہلاء کے مصارف ہیں؟ ج:- نیز کیا ایسے استہلاء کے مصارف جن سے براہِ راست طلبہ کی منفعت وابستہ نہیں ہوتی، مثلاً: مہمان نوازی، اجراء رسائل، دارالافتاء، شعبہ اصلاح معاشرہ اور تبلیغ وغیرہ کے اخراجات، کیا ان میں مہتمم صاحب براہِ راست رقم زکوٰۃ صرف فرماسکتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیا اس کی کوئی صورت نکل سکتی ہے؟ کیوںکہ نظامِ مدارس کے لئے یہ امور تقریباً ضروری یا دینی اعتبار سے مفید ہیں؟ بینوا توجروا باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:بعض مدارس میں وکالت نامہ پر دستخط کا جو سلسلہ جاری ہے اس پر احقر کو شرح صدر نہیں ہے اس لئے کہ اس پورے عمل میں طالب علم کو خود تصرف کا کہیں بھی اختیار نہیں ہوتا اور شروع سے اخیر تک یہ پورا معاملہ مجہول رہنا ہے ، حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ جب کوئی طالب علم اپنی طرف سے ذاتی طور پر صدقات وصول کرنے کا وکیل بنائے تو وصول کرنے کے بعد محصلہ رقم پر اس طالب علم کو تصرف کا اختیار ملنا چاہئے حالانکہ مدارس میںیہ اختیار تو کجا اسکا تصور بھی نہیں ہوتا اور یہ توکیل محض کاغذی کارروائی اور دل مطمئن کرنے والی بات بن کر رہ جاتی ہے البتہ یہ حیلہ اس وقت درست ہو سکتا ہے، جب کہ ارباب مدرسہ ہر طالب علم کے نام الگ کھاتہ