خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
گنجائش دی ہے؛ لیکن دیگر اکابر سے اس کی تائید منقول نہیں ہے اور اگر بالفرض مہتمم کو امیر المؤمنین کے درجہ میں رکھا جائے تو اس کی بنیاد پر اسے زکوٰۃ کی رقومات غیر مصارف میں خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اسلئے کہ واقعی امیر المومنین کو بھی شریعت میں پابند کیا گیا ہے کہ وہ بیت المال کی مختلف مدات کی رقومات الگ الگ رکھیں اور خلط ملط کرکے نہ رکھیں تو جب امیر المومنین کو غیر مصارف میں خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہے تو مہتمم اور سفراء کو کیسے اجازت ہو سکتی ہے۔ (مستفاد : امداد الفتاوی ۳؍۳۱۶، فتاویٰ محمودیہ ۱۴؍۲۷۵ میرٹھ، ۹؍۵۱۱ ڈابھیل) مستفاد: بخلاف ما إذا ضاعت في ید الساعي لأن یدہ کید الفقراء۔ (شامي ۲؍۲۷۰ کراچی) ما یوضع في بیت المال أربعۃ أنواع: الأول: زکاۃ السوائم والعشور … والثاني: خمس الغنائم والمعادن والرکاز… والثالث: الخراج والجزیۃ وما صولح علیہ، والرابع: اللقطات… وما أخذ من ترکۃ المیت الذي مات ولم یترک وارثاً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۹۰-۱۹۱) قال محمدؒ: یجب أن تکون بیوت الأموال أربعۃ، أحدہا: بیت مال الزکاۃ العشر والکفارات… والثاني: بیت مال الخراج والجزیۃ… والثالث: بیت مال الخمس… والرابع: بیت مال اللقطات والترکات۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۳۴۸ رقم: ۴۵۴۰ زکریا) سوال(۳۲۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر مہتمم مدرسہ کی حیثیت امیر المؤمنین کی ہے، تو اس سلسلہ میں اشکال ہوگا کہ اس کی ولایت عام نہیں ہے، تو کیا ولایت کے حصول کے لئے طلبہ کی جانب سے کسی وکالت نامہ پر دستخط کرالینا، جس میں مہتمم صاحب کو ان کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کا اختیار دیا گیا ہو، کافی ہوگا یا نہیں؟ واضح رہے کہ بعض مدارس میں یہ طریقہ بھی رائج ہے۔