خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
کھول کر اس کی طرف کوئی خاص رقم منتقل کریں جس میں وہ خود تصرف کرنے کا مجاز ہو پھر وہ مہتمم مدرسہ کو اپنے اسی کھاتے سے رقم نکالنے کی اجازت دیدے تو یہ اجازت معتبر مانی جائے گئی اور پھر یہ فقیر طالب علم جن جن مدات میں خرچ کرنے کی اجازت دے گا ان میں بلا تکلف اس کی طرف سے اسے خرچ کرنا جائز ہوگا چاہے وہ استقلالی مصارف ہوں یا غیر استقلالی ، حتی کہ مدرسہ کی خارجی ضروریات میں بھی خرچ کرنے کی گنجائش ہوگی۔ (مستفاد: محمود الفتاوی ۲؍۴۲-۴۳) سوال(۳۲۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مدارس کے علاوہ دیگر دینی وملی اداروں (مثلاً جمعیۃ علماء ہند، مسلم پرسنل لاء بورڈ وغیرہ) کے لئے زکوٰۃ وصدقاتِ واجبہ کی رقوم وصول کرنا جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو اس کے استعمال کا کیا طریقہ ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو ملی ادارے ملی خدمات میں مشغول ہیں ان کے لئے اولاً تو امدادی فنڈ سے رقم جمع کرنے کی کوشش ہونی چاہئے؛ لیکن اگر ضرورت متقاضی ہو تو زکوٰۃ و صدقاتِ واجبہ کی رقومات بھی جمع کر سکتے ہیں؛ مگر خرچ کرتے وقت حکمِ شرعی کی رعایت کرنا ضروری ہے یعنی غیر مصرف میں بلا شرعی تملیک کے ان کو خرچ کرنا درست نہ ہوگا۔ (مستفاد: کفایت المفتی ۴؍۲۸۵) کل حیلہ یحتال بہا الرجل لیتخلص بہا عن حرام أو لیتوصل بہا الی حلال فہي حسنۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۰؍۳۱۳ زکریا) والزکاۃ یجب فیہا تملیک المال لأن الایناء في قولہ تعالی: {وَآتُوْا الزَّکَاۃَ} حقیقي التملیک۔ (تبیین الحقائق۲؍۱۱۸، البحر الرائق ۲؍۲۰۱) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۵؍۵؍۱۴۳۵ھ