خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
لایصرف إلی بناء نحو مسجد، وتحتہ في الشامیۃ: وکل مالاتملیک فیہ۔ (شامي ۳؍۲۹۱ زکریا) ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃً۔ (شامي ۳؍۲۹۱ زکریا) سوال(۳۲۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مدرسہ کے مہتمم صاحب یا ان کے مقرر کردہ سفیر کی حیثیت کیا ہے؟ کیا مہتمم صاحب کو امیر المؤمنین اور ان کے مقرر کردہ سفیر کو اسلامی حکومت کے عامل صدقات کا درجہ دیا جاسکتا ہے؟ اس سلسلہ میں قرآن وحدیث کی نصوص اور فقہی تصریحات کے علاوہ حضراتِ اکابر علماء حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی اور حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمہم اللہ کی تحریرات وفتاویٰ میں جو کچھ نفیاً واثباتاً درج ہے، اسے بھی پیش نظر رکھتے ہوئے مدلل واطمینان بخش موقف کی وضاحت فرمائیں، نیز مہتمم بحیثیت امیر المؤمنین زکوٰۃ وصول کرکے اس میں سے سفیر کا محنتانہ اور مستحقین کی ضروریات میں ازخود صرف کرسکتا ہے یا نہیں؟ اگر کرسکتا ہے تو کس حد تک؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:مدرسہ کے مہتمم حضرات من وجہ طلبہ کی طرف سے اور من وجہ معطی حضرات کی جانب سے وکیل ہیں، طلبہ کے وکیل ہونے کے اعتبار سے زکوٰۃ کی رقم سفراء اور مہتمم کے قبضہ میں آتے ہی معطی حضرات کی زکوٰۃ کی ادائیگی سمجھی جاتی ہے؛ لیکن جب تک یہ رقم اصل مصارف میں خرچ نہ ہو معطی حضرات کے وکیل ہونے کی حیثیت سے مہتمم کا ذمہ بری نہیں ہو سکتا، اور مہتمم کو مطلقاً امیر المؤمنین کے درجہ میں اور اس کے سفراء کو عاملینِ صدقات کے درجہ میں نہیں رکھا جاسکتا اسلئے کہ اسلامی حکومت کے عاملین فقراء کی طرف سے وکیل ہوتے ہیں، ان میں دونوں جہتیں نہیں پائی جاتیں، اور ہمارے اکابر میں صرف مفتی اعظم حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ نے سفراء مدارس کو عاملینِ صدقات کے درجہ میں رکھ کر انکے لئے بمد زکوٰۃ محنتانہ لینے کی