خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
اس لئے ان کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں۔ نیز جو عمارت بنائی گئی ہے اسکے طلبہ مالک نہیں ہیں؛ لہٰذا طلبہ کی طرف سے اس رقم کی ادائیگی کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے، اور اسے ’’والغارمین‘‘ میں شامل کرنا درست نہیں کیونکہ اس سے وہی غارمین مراد ہیں جو مفلوک الحال ہوں۔ قولہ تعالی: {وَالْغَارِمِیْنَ} ہم الذین رکبہم الدَّین ولا وفاء عندہم بہ ولا خلاف فیہ روی مسلم عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال: أصیب رجل في عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم في ثمارٍ إبتاعہا فکثر دینہ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم: تصد قوا علیہ، فتصدق الناس علیہ۔ (تفسیر قرطبي ۸؍۱۸۳-۱۸۴) سوال(۳۱۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: بعض مدارس میں یہ طریقہ بھی رائج ہے کہ جتنا ماہانہ خرچ بشمول مطبخ، تعلیم وتنخواہ ومدرسین وغیرہ آتا ہے، اس کو طلبہ کی تعداد پر تقسیم کرکے ہر ایک کے حصہ میں آنے والی رقم بطور فیس مقرر کردی جاتی ہے، اور ہر مہینہ فیس کے بقدر رقم بطور وظیفہ طالب علم کو مد زکوٰۃ سے دے کر اس سے مذکورہ فیس میں وصول کرلی جاتی ہے، یہ صورت کہاں تک جائز ہے؟ وضاحت فرمائیں۔ واضح رہے کہ چھوٹے مدارس میں تو کسی حد تک اس پر عمل کیا جاسکتا ہے؛ لیکن بڑے مدارس جہاں طلبہ کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے، وہاں اس پر عمل درآمد غالباً مشکل ہے۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں ذکر کردہ صورت بہترین اور بے غبار ہے اور اگر توجہ کی جائے تو نہ صرف چھوٹے مدارس میں بلکہ بڑے مدارس میں بھی یہ صورت اپنائی جا سکتی ہے ، اور اس میں یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف ہر مہینہ کی رقم کے بقدر وظیفہ کا اہتمام ہو بلکہ سالانہ یاچھ مہینہ کے حساب کے اعتبار سے بھی فیس کی ادائیگی اور وصولی کی شکل اپنائی جا سکتی ہے۔ (مستفاد: کتاب المسائل ۲؍۲۷۳، فتاویٰ رحیمہ ۵؍۱۵۰، فتاویٰ محمودیہ ۹؍۶۰۳ ڈابھیل، محمود الفتاوی ۲؍۴۷)