خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
میں کہ: بعض مدارس میں یہ طریقہ ہے کہ کسی مستحق یا محتاج شخص سے کہا جاتا ہے کہ تم اپنے طور پر قرض لے کر مدرسہ کی فلاں ضرورت میں خرچ کردو، اور خرچ کے بعد اس کو مد زکوٰۃ سے اتنی رقم دے دی جاتی ہے، جس سے وہ اپنے قرض کی ادائیگی کرسکے، کیا یہ صورت درست ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:مدرسہ سے وابستہ کوئی سرمایہ دار شخص اگر اپنی ذاتی رقم سے کسی فقیر شخص کو قرض دے اور یہ فقیر شخص اس رقم کو ضروریات مدرسہ میں لگا لے تو اس فقیر کے قرضہ کی ادائیگی میں مدرسہ میں موجود زکوٰۃ کی رقم صرف کرنے کی گنجائش ہوگی، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اس تدبیر کی تائید فرمائی، اور ضرورت کے وقت یہ صورت اپنانے کی گنجائش ہے۔ (مستفاد: امداد الفتاوی قدیم: ۴؍۲۱۸، جدید ۲؍۵۰) الدفع إلی من علیہ الدین أو من الدفع إلی الفقیر کذا في المضمرات۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸) سوال(۳۱۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کسی عمارت کی تعمیر کے سلسلہ میں بعض دفعہ مہتمم صاحب کسی ایک مال دار شخص یا چند افراد کی کمیٹی سے کہتے ہیں کہ آپ خود یا لوگوں سے قرض لے کر مدرسہ کی عمارت بنوادیں، پھر ہم اس کی ادائیگی کسی طرح کردیںگے، پھر مہتمم صاحب زکوٰۃ کی رقم سے ان حضرات کا دین ادا کردیتے ہیں تو کیا رقومِ زکوٰۃ یا دیگر صدقاتِ واجبہ سے ان حضرات کا قرض ادا کیا جاسکتا ہے؟ اور یہ صورت {والغارمین} کے تحت شامل ہوکر جائز قرار دی جاسکتی ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:مدرسہ کی تعمیر کے سلسلہ میں سوال میں جو صورت لکھی گئی ہے اس میں زکوٰۃ و صدقات واجبہ کی رقومات لگانا درست نہ ہوگا، اس لئے کہ جو مالدار شخص یا کمیٹی کے افراد خود یا دوسروں سے قرضہ لے کر عمارت میں لگا رہے ہیں وہ بذات خود مستحق زکوٰۃ نہیں ہیں