خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
سوال(۳۱۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر تملیک ضروری ہی ہو تو مدارس میں تملیک کا جو مروجہ طریقہ ہے، جس میں مستحق پر کسی نہ کسی درجہ میں دباؤ ہوتا ہے کہ وہ بہرصورت مدرسہ کو واپس ہی کردے، وہ کہاں تک درست ہے؟ کیا اس طریقہ پر تملیک کا عمل مکمل ہوجاتا ہے، یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس کی کوئی بے غبار صورت آپ کے ذہن میں ہو تو تحریر فرمائیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ تملیک میں فقیر کو مالک بنا دینے کے بعد مصارف میں خرچ کرنے کی ترغیب تو دی جا سکتی ہے، لیکن اس پر دباؤ بنانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ ایسے شخص سے تملیک کرائی جائے جو اچھی طرح مسئلہ سے اور اسکی نزاکت سے واقف ہو اور اجر و ثواب کے حصول کے ذوق و شوق میں وہ اپنی ملکیت کو بشاشت کے ساتھ مصارف میں خرچ کرنے پر راضی ہو، اور اس طرح ذہن سازی ارباب مدارس کیلئے کوئی مشکل نہیں ہے، اور ضرورت کے وقت اس طرح کا حیلہ کرنے کی گنجائش فقہاء کی عبارت سے ماخوذ ہے۔ عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أتی بلحمٍ تصدق بہ علی بریرۃ فقال ہو علہا صدقۃ وہو لنا ہدیۃ۔ (صحیح البخاري ۱؍۲۰۲ رقم: ۱۴۷۳، مسلم شریف ۱؍۳۴۵ رقم: ۱۰۷۴) والحیلۃ لہ أن یتصدق بمقدار زکاتہ علی فقیر ثم یأمرہ بعد ذلک بالصرف إلی ہذہ الوجوہ، فیکون للمتصدق ثواب الصدقۃ ولذلک الفقیر ثواب بناء المسجد والقنطرۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۶؍۳۹۲، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۸ رقم: ۱۴۱ زکریا، شامي ۳؍۱۹۱ زکریا) لایجوز الزکاۃ الا إذا قبضہا الفقیر۔ (المحیط البرہاني ۳؍۲۱۴ کوئٹہ) سوال(۳۱۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے