خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
|
ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃً (وتحتہ فی الشامیۃ) فلا یکفی فیہا الإطعام إلا بطریق التملیک۔ (شامي ۳؍۲۹۱ زکریا) إذا کان یعول یتیماً ویجعل مایکسوہ ویطعمہ من زکوٰۃ مالہ ففي الکسوۃ لاشک في الجواز لوجود الرکن وہو التملیک، وأما الطعام فما یدفعہ إلیہ بیدہ یجوز أیضاً لما قلنا بخلاف ما یأکلہ بلا دفعٍ إلیہ۔ (شامي ۳؍۱۷۲ زکریا، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۱۴ رقم: ۴۱۵۹ زکریا) ب:- اور طلباء اور علماء کو اجر و ثواب اور عمومی مصداق کے اعتبار سے تو فی سبیل اللہ کے تحت داخل کیا جاسکتا ہے لیکن مصرف زکوٰۃ کے اعتبار سے فی سبیل اللہ کا مصداق مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں؛ لہٰذا اس کو بنیاد بناکر طلباء و علماء پر براہ راست زکوٰۃ صدقات کی رقومات صرف کرنا صحیح نہ ہوگا۔ وقیل طلبۃ العلم (درمختار) وقال الشامي: وہل یبلغ طالب رتبۃ من لازم صحبۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم تلقی الأحکام عنہ کأصحاب الصفۃ، فالتفسیر بطالب العلم وجیہ خصوصاً۔ (شامي ۲؍۳۴۲ کراچی) وفي سبیل اللّٰہ وہم الغزاۃ وموضع الرباط یعطون ما ینفقون في غزوہم کانوا أغنیاء أو فقراء۔ (تفسیر قرطبي ۸؍۱۸۵) وأما قولہ تعالیٰ: {وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} - إلی قولہ - فالمراد ہو الغازي الفقیر رقبۃً ویداً أو رقبۃ بأن کان منقطعاً عن مالہ فیکون فقیراً یداً غنیاً رقبۃً ۔ وفي المضمرات: إن ابن السبیل ہو الذي لا یقدر علی مالہ وہو غني۔ (فتاویٰ تاتارخانیۃ زکریا ۳؍۲۰۴ رقم: ۴۱۳۵) وأما قولہ تعالی: {وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} عبارۃ عن جمیع القرب فید خل فیہ کل من سعی فی طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ وسبیل الخیرات إذا کان محتاجاً۔ (بدائع الصنائع ۲؍۱۵۴ زکریا)